وحدت نیوز (لیہ) مجلس وحدت مسلمین ضلع لیہ کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل سید عدیل عباس شاہ نے کہا ہے کہ آئی ایس پی آر کی جانب سے قومی ایکشن پلان کے حوالے سے جاری بیان حقائق پر مبنی اور حکومت کیلئے لمحہ فکر ہے۔ اپنے ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ نواز حکومت بالخصوص پنجاب میں شہباز شریف کی حکومت میں قومی ایکشن پلان دہشتگردوں کی بجائے ملت تشیع کیخلاف استعمال ہورہا ہے، اسی ایکشن پلان کے نام پر عزاداری سید الشہداء (ع) کو محدود کرنے کی کوشش کی گئی، اور اہل تشیع کو ہراساں کیا گیا، پولیس کی جانب سے شیعہ رہنماوں اور نوجوانوں کو پریشان کیا گیا، انہوں نے کہا کہ قومی ایکشن پلان کو پوری قوم نے سپورٹ کیا، حکومت اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرے اور اپنی پالیسی درست کرے۔ انہوں نے فرانس کے شہر پیرس میں دہشتگردانہ حملہ کی بھی شدید الفاظ میں مذمت کی، اور کہا کہ دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے والے ممالک کو اپنی پالیسی تبدیل کرنا ہوگی، بےگناہ شہری جس بھی مذہب و ملک سے تعلق رکھتے ہوں، ان کا قتل جرم ہے۔
وحدت نیوز (ملتان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی جانب سے فرانس میں ہونیوالی دہشت گردی کی بھرپور مذمت کرتے ہوئے پنجاب کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ فرانس میں ہونیوالی دہشت گردی قابل مذمت ہے۔ اس واقعے میں ہلاک اور زخمی ہونے والوں کے لواحقین سے افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ نجی ٹی وی پر گفتگو کرتے ہوئے علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا کہ فرانس کے واقعے نے ثابت کر دیا ہے کہ دہشت گردی صرف پاکستان اور عالم اسلام کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے، جس کو حل کرنے کیلئے عالمی برادری کو ترجیحی بنیادوں پر مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہیئے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ نادان لوگ اسلام اور دہشت گردی کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑنے کی مذموم سازش کرتے ہیں، اب اس سازش کا خاتمہ ہونا چاہیئے۔ جب تک عالمی برادری انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف متحد نہیں ہوگی دنیا سے دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔
وحدت نیوز (چوک اعظم) مجلس وحدت مسلمین چوک اعظم کے سیکرٹری سیاسیات ڈاکٹر ناصر علی جعفری نے کہا کہ بلد یاتی الیکشن کے حوالے سے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور آزاد امیدوار مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ حمایت طلب کرنے کے لیے رابطے میں ہیں، مجلس وحدت مسلمین باکردار، مخلص اور عوام کی بلا تفریق خدمت پر یقین رکھنے والے امیدواروں کو سپورٹ کرئے گی ۔
ان کا مزیدکہنا تھا کہ ہم چوک اعظم اور اس کے گرد نواح کے عوام کی فلاح و بہبود چاہتے ہیں ہماری جماعت کی اس حوالے سے پالیسی واضع ہے ہم عوام کی بلا تفریق خدمت پر یقین رکھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ چوک اعظم اور اس کے گرد نواح کے علاقوں کو ترقی دھار میں شامل کیا جائے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے اور کئی آزاد امیدوار ہم سے رابطے میں ہیں۔ تاہم مجلس وحدت مسلمین نے ابھی کسی مخصوص جماعت سے پینل کی حمایت کا فیصلہ نہیں کیا انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے جلد لائحہ عمل کا اعلان کیا جائے گا ۔ اور مخلص ، باکردار اور داغ ماضی کے حامی امیدواروں کو سپورٹ کیا جائے گا ۔
ہم نعروں پر نہیں عوام کے مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں ،ٹیوب ویل کے افتتاح کے موقع پرآغا رضاکی گفتگو
وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کے پارلیمارنی لیڈر ممبر بلوچستان اسمبلی آغا رضا نے حلقہ 10 میں ٹیوب ویل کا افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ میں پانی کی سطح روز بروز نیچے جا رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اگر وفاقی اور صوبائی حکومت نے جلد کوئٹہ کے اطراف میں ڈیم نہیں بنوائیں توآئندہ چند سالوں میں کوئٹہ سے عوام ہجرت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے کیونکہ انسان کے زندہ رہنے کے لیے پانی اہم جز ہے۔ معززین علاقہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مغربی ممالک میں زمین سے پانی کو نہیں نکالا جاتا بلکہ بارش کے پانی کو ری سائیکل کرکے عوام تک پہنچایا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی آئندہ نسل کے لیے زمین میں پانی کو ذخیرہ کر رہے ہیں اور ہم اس کے برعکس اپنے آئندہ نسل کے لیے کچھ نہیں چھوڑ رہے ہیں۔ یہاں صرف حکومت مجرم نہیں بلکہ عوام پر بھی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے کہ پینے کے پانی کو بے جا استعمال نہ کریں۔ اکثر گھروں سے جب پانی کی ٹینکی بھر جاتے ہیں تو نل کو بند نہیں کیا جاتا جس سے صاف اور پینے کا پانی ضائع ہوتا جاتا ہے اور چھت سے گلی میں پانی پہتا رہتا ہے۔ پانی اللہ کی نعمت ہے اسے اس طرح ضائع کرنا شریعت خداوندی میں جائز نہیں۔ علماءکرام سے بھی گزارش ہے کہ اپنے مجالس میں پانی جیسے نعمت کے اسراف پر زیادہ زور دیں اور لوگوں کو آگاہی فراہم کریں تاکہ آئندہ آنے والے وقتوں میں عوام کو مشکلات اور کمی آب کا سامنا نہ کرنا پڑے۔بیان کے آخر میں کہا گیا کہ ہم عوام کے مسائل کے حل پر یقین رکھتے ہیں ،عوام کی خدمت ہمار انصب العین ہے اور ہم اس کو عملی طور پر حل کر رہے ہیں۔ ہم بلا رنگ ونسل و مذہب نہ صرف اپنے علاقے میں بلکہ پشتون آباد ائیریا میں بھی ریزروائر بنانے کا پروگرام رکھتے ہیں اور انشاءاللہ جلد ہی کام کا آغاز کیا جائے گا۔ حلقہ 16-15-14 میں بھی ریزروائر کا کام جاری ہے اور عوام کی سہولت کے لیے کمیونٹی ہال کی تعمیر آخری مراحل میں ہے اور آئندہ بھی عوام کی خدمت جاری رکھیں گے۔
وحدت نیوز(لاہور) سانحہ جیکب آباد اور بلوچستان چھلگری میں شہید ہونے والے شہداء کو اہمیت نہ دے کر حکومت اور ریاستی اداروں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مشکوک بنا دیاہے،سانحہ جیکب آباد اور چھلگری میں ایک سال سے لے کر سترہ سال تک کے بچے شہید ہوئے،کیا ان کا جرم یہ ہے کہ وہ ایک غریب گھرانے میں پیدا ہوئے؟طبقاتی واستحصالی نظام کے خاتمے تک ملک میں امن کا قیام ممکن نہیں،ہمیں اب اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ حکومت دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دہشت گردوں کا خاتمہ نہیں بلکہ دہشت گردوں پر کنٹرول چاہتا ہے،تاکہ دہشت گرد ان کو محفوظ رکھے باقی پاکستانی عوام کے قتل عام سے ان کو کوئی سروکار نہیں،حکمران ملکی بقا کی نہیں اپنے مفادات اور اقتدار کے تحفظ کی جنگ میں مصروف ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے لاہور میں کارکنان و عمائدین شہر سے خطاب کرتے ہوئے کیا،انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے ناسور کی پرورش میں ہمارے اپنے لوگوں کا ہاتھ ہے،دہشت گردوں کے سہولت کار اور سیاسی سرپرست آج بھی آزاد ہیں،دہشت گردی کے خلاف جنگ اور نیشنل ایکشن پلان کی آڑ میں مظلوموں پر طلم اور ظالم شرپسندوں کو تحفظ دیا جا رہا ہے،پاکستان میں نفرتوں کے سوداگروں اور ہزاروں پاکستانیوں کے قاتل کالعدم جماعتوں کو نام بدل کر پھر سے منظم کیا جارہا ہے،سیاسی جماعتیں ان قاتلوں اور دہشت گردوں سے اتحاد بنا کر الیکشن لڑنے میں مصروف ہیں،کیا ان سب معاملات سے ہمارے قومی سلامتی کے ادارے لاعلم ہیں؟ہرگز نہیں ہمارے حکمران اور ادارے سب جانتے ہیں،افغان جہاد کے نام پر پاکستانی قوم کو دہشت گردی اور کلاشنکوف کلچر کا تحفہ دیا،ساٹھ ہزار سے زائد پاکستانیوں کا قتل عام،دنیا میں پاکستان کو دہشت گردوں کی نرسری بنا کر پیش کیا گیا،لیکن ہمارے مقتدر قوتوں نے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی،آج جس دلدل کی طرف ملک کو دھکیلنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کے ذمہ دار ہمارے حکمران ہیں،جو ریاست کے ساتھ مخلص نہیں،انہوں نے کہا کہ تبدیلی کے نام پر عوام کو بیوقوف بنا کر حکمران اور سیاسی جماعتیں لوٹ کھسوٹ میں مصروف ہیں،غریب خودکشی کرنے پر مجبور ہیں،ملکی وسائل پر اشرافیہ مزے لوٹ رہے ہیں،عدل کا نظام ناپید ہو چکا ہے،آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کے ہاتھوں ملک کو گروی رکھا جا رہا ہے،اگر اسی عمل کا نام جمہوریت ہے تو پاکستانی قوم اس جمہوریت سے بیزار ہیں،علامہ راجہ ناصر کا کہنا تھا کہ یورپ میں عالمی دہشت گرد داعش کے ہاتھوں بے گناہ انسانوں کا قتل عام قابل مذمت ہے،لیکن آج دنیا کے مہذب قومیں یورپ اور مغرب کے حکمرانوں سے سوال کرتی ہیں کہ اسلحہ و بارود کے کاروبار کو وسعت دینے کے لئے جن دہشت گردوں کو مسلمان ملکوں پر مسلط کیا گیا آج یہی ممالک مکافات عمل کا شکار ہے،اور دہشت گردی کی آگ ان کے دہلیز پر بھی آن پہنچی ہے۔
وحدت نیوز (آرٹیکل) یہ ایک حقیقت ہے کہ اس دنیا میں وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو سیاسی قوت بن کر ابھرتی ہیں۔ اپنے نظریات اور افکار کا تحفظ کرتی ہیں اور چھپی سازشوں کا سدباب کرتی ہیں۔ اگر کسی ملت اور قوم کی سیاسی قوت نہیں تو وہ ہمیشہ اپنے حقوق کی بھیک مانگتی نظر آتی ہے۔ ان کی سیاسی جدوجہد سڑکوں پر احتجاج اور پارلیمنٹ کے سامنے حکمرانوں کو متوجہ کرنے سے آگے نہیں بڑھتی۔ پاکستان کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ وہ جماعتیں اور گروہ آگے بڑھ سکے، جنہوں نے سیاسی میدان میں کام کیا ہے۔ جمعیت علماء اسلام کا نام لیں یا پھر جماعت اسلامی کا، دونوں جماعتوں کی تاریخ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہر الیکشن میں اپنا کوئی نہ کوئی رول ضرور ادا کیا ہے، یوں ان کے نمائندے ایوانوں میں موجود رہے اور ہر آنے والی حکومت کا حصہ بنے رہے۔ دونوں جماعتیں مکتب دیوبند کی نمائندگی کرتی ہیں۔ اگر ہم پاکستان کی آبادی کا تناسب نکالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ آبادی اہل سنت کی ہے، جنہیں بریلوی مکتب فکر کے عنوان سے جانا جاتا ہے، یعنی ملک میں مکتب اہل سنت آبادی کا تقریباً 70سے 75فیصد ہیں، اسی طرح اہل تشیع کے بارے میں محتاط اندازے کے مطابق ان کی تعداد آبادی کے لحاظ سے 15 سے 20 فیصد بنتی ہے، جبکہ مکتبہ دیوبند اور اہل حدیث کی ملاکر تعداد آبادی کے لحاظ سے تقریباً 8 سے 10 فیصد بنتی ہے۔ لیکن سیاسی افق پر سب سے زیادہ مضبوط مکتب دیوبند کی جماعتیں ہیں، جو ہر دور حکومت میں اسمبلیوں میں موجود رہی ہیں، جبکہ دوسری جانب اہل سنت اور اہل تشیع سیاسی میدان میں وہ کامیابیاں نہیں سمیٹ سکے، جو آبادی کے تناسب کے لحاظ سے انہیں سمیٹنی چاہیں تھیں۔ اس کی بنیادی وجہ سیاسی میدان کو خالی چھوڑنا اور کسی حکمت عملی کا نہ ہونا ہے۔ یہی وجہ بنی کہ ریاستی اداروں نے بھی ہر معاملے میں فقط انہی لوگوں کو اپنے ساتھ ملایا، جن کی سیاسی قوت موجود تھی جبکہ جو لوگ سیاسی لحاظ سے کمزور تھے یا انہوں نے اس میدان میں کوئی کردار ادا نہیں کیا، انہیں مکمل طور پر نظرانداز کیا گیا۔ کلی طور پر مذہبی جماعتوں کے عوام میں پذیرائی کا نہ ہونا بھی ایک موضوع ہے، جو فی الوقت ہمارا موضوع بحث نہیں ہے۔
پس سیاسی قوت بنے بغیر اس ملک میں کوئی اہم کردار ادا کرنا ناممکن نظر آتا ہے۔ شہید قائد علامہ عارف حسین الحسینی نے 6 جولائی 1987ء کو مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی عظیم الشان قرآن و سنت کانفرنس میں سیاسی میدان میں اترنے اور اسلامی حکومت کے احیاء کے حوالے سے واضح اعلان کرکے دشمن کو پیغام دیا تھا کہ مکتب اہل بیت ؑ اب سیاسی میدان کو خالی نہیں چھوڑے گا، لیکن دشمنوں نے ہم سے ہمارا عظیم قائد چھین لیا، ضیاء دور کے بعد الیکشن میں اپنی شناخت کے ساتھ حصہ لیا گیا، لیکن اس کے بعد اس میدان کو خالی چھوڑ دیا گیا۔ ممکن ہے کہ بعض لوگ یہ رائے رکھیں کہ ہمیں سیاسی جماعتوں کے اندر رہ کر ہی کوئی رول ادا کرنا چاہیئے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ چکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کے پیش نظر ان کا سیاسی ایجنڈا ہوتا ہے، جس کو وہ فالو کرتی ہیں۔ حتٰی ان سیاسی جماعتوں میں موجود شیعہ حضرات جنہیں اسمبلیوں میں پہنچایا گیا، وہ بھی فقط اس وجہ سے کوئی کردار ادا نہ کرسکے کہ ان کے آگے سیاسی جماعتوں کی پالیسی آڑے آجاتی رہی۔ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ ہو یا پھر ڈی آئی خان میں سینکڑوں لوگوں کی ٹارگٹ کلنگ، سیاسی جماعتیں ان معالات کو اٹھانے اور انہیں رکوانے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئیں۔ عموماً تصور کیا جاتا ہے کہ پیپلز پارٹی اہل تشیع اور اہل سنت (بریلوی) پر مشتمل جماعت ہے، کیونکہ اس جماعت کا بیشتر ووٹ بینک ان دو مکتب فکر پر مشتمل ہے، لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پارا چنار کا تین سال کا محاصرہ اسی جماعت کے دور حکومت میں پیش آیا، ڈیرہ اسماعیل خان سے لوگ ہجرت پر اسی جماعت کے دور حکومت میں مجبور ہوئے، لیکن ان حالات میں اس جماعت نے کوئی ایسا بڑا اقدام نہیں کیا، جو مکتب تشیع میں یہ اطمینان پیدا کرسکے کہ اس کے تحفظ کیلئے اقدامات اٹھائے گئے۔
حد تو یہ تھی کہ پیپلز پارٹی نے اہل تشیع کو اپنا ووٹر تک نہ سمجھا، سانحہ چلاس ہو یا پھر سانحہ لالوسر، ہر جگہ اس جماعت کی خاموشی نے اس تاثر کو مزید گہرا کر دیا کہ سیاسی جماعتیں اپنی مصلحت کے پیش نظر کچھ بھی نہیں کرسکتیں۔ شیعہ ٹارگٹ کلنگ پر پیپلز پارٹی میں واحد سینیٹر فیصل رضا عابدی تھے جو بابانگ دہل بولتے تھے، لیکن سیکولر جماعت ہونے کی دعویٰ دار اس جماعت سے یہ برداشت نہ ہوسکا اور فیصل رضا عابدی سے استعفٰی لیکر اسے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے گھر بھیج دیا گیا۔ چشم فلک نے یہ بھی دیکھا کہ سینکڑوں شیعہ مرتے رہے لیکن سیاسی جماعتوں کے رہنما تعزیت تک نہ کرنے آئے، اس مادر وطن پر اہل تشیع کو تیسرے درجہ کا شہری ہونے کا تاثر دینا شروع کر دیا گیا۔ اہل تشیع کو اس حد تک کمزور و نحیف سمجھا گیا کہ ان کو فٹ بال بنا دیا گیا، پیپلزپارٹی سے نکلے تو نون لیگ میں اور نون لیگ سے نکلے تو پھر پیپلزپارٹی میں۔ لیکن ان دونوں جماعتوں نے ہمیشہ اپنے مفادات کو مقدم جانا۔ تکفیریوں کو چند ووٹوں کی خاطر مضبوط کرتے رہے اور آج بھی کر رہے ہیں۔ کالعدم جماعت کا رہنما مولانا احمد لدھیانوی برملا اظہار کرتا رہا کہ دونوں جماعتوں کے درجنوں ایم این اے ان کے ووٹوں کی وجہ سے جیتے۔ سچ تو یہ ہے کہ پارا چنار کے تین سالہ محاصرے اور ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ نے تشیع کے اندر احساس محرومی پیدا کر دیا تھا، حتٰی تشیع کے حقوق کے دفاع کے نام پر بننے والی جماعتوں نے بھی خاموشی سادھ لی تھی تو ریاستی اداروں نے یہ تاثر دینا شروع کر دیا کہ وہ ایک خاص پالیسی پر گامزن ہیں، شیعوں کا ووٹ اینٹھنے والی سیاسی جماعتوں نے بھی کچھ نہ بولنے کی قسم اٹھا لی۔
حالات تیزی سے تبدیل ہونے لگے اور ملت کے مخلص لوگوں کو مل بیٹھنے اور اس ظلم کیخلاف آواز اٹھانے پر مجبور کر دیا۔ یوں حالات کے ستم نے ملت کے خواص کو مکتب کیخلاف ہونے والی منظم سازشوں سے نمٹنے کیلے اجتماعی رول اور نقش ادا کرنے پر مجبور کر دیا۔ ایسے میں مجلس وحدت مسلمین معرض وجود میں آئی اور ملک بھر میں پھیلے امامینز اور مخلص علمائے کرام نے اپنے ناتواں کندھوں پر ملت کا بوجھ اٹھانے کی ٹھان لی۔ مخلص اور بےلوث افراد نے کرم ایجنسی کے پہاڑوں میں دبی آواز کو نہ صرف پارلیمنٹ اور میڈیا پر اٹھایا بلکہ اس ظلم کو دنیا کے سامنے عیاں کیا، ڈیرہ اسماعیل خان میں ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی تو ملت کے اندر حوصلہ بڑھا۔ کوئٹہ میں ہزارہ شیعہ برادری پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے تو یہ جماعت سینہ تان کر ہر ستم کا مقابلہ کرنے کیلئے آگے آگئی اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پاکستان میں پہلی بار اہل تشیع نے تاریخ ساز احتجاج کیا اور صوبائی حکومت کو اس ظلم پر خاموشی اختیار کرنے پر سزا دیتے ہوئے چلتا کیا۔ یوں یہ جماعت ملک بھر میں پھیل گئی اور مظلوموں کی ڈھارس بن گئی۔
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
سانحہ عاشورہ راولپنڈی کے وقت بھی اسی جماعت نے آگے آکر عزاداری سیدالشہداء کے خلاف ہونے والی منظم سازش کا مقابلہ کیا اور عزاداری سیدالشہداء ہماری شہہ رگ حیات کے قائد شہید کے جملوں کو عملی کرکے دکھایا۔ اس کامیابی نے ملت کے اندر حوصلہ پیدا کیا اور خواص اس نتیجے پر پہنچے کہ سیاسی کردار ادا کئے بغیر ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں ہے، یوں مجلس وحدت مسلمین کی شوریٰ عالی نے سیاسی کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا اور دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں سیاسی شعبے نے بہت ہی کم وقت میں اپنے امیدواروں کا اعلان کر دیا اور ملک بھر میں الیکشن مہم کا آغاز کر دیا گیا۔
وہ سیاسی جماعتیں جو کبھی مکتب اہل بیت علیہ السلام کے ماننے والوں کو اہمیت نہیں دیتی تھیں، انہیں احساس ہونا شروع ہوگیا کہ اہل تشیع کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، یوں تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان، مسلم لیگ قاف کے سربراہ چودھری شجاعت حسین، اے این پی کے رہنما اور ایم کیو ایم سمیت تمام سیاسی جماعتوں نے مجلس وحدت مسلمین کی قیادت سے براہ راست رابطے کئے اور ایم ڈبلیو ایم کے دفاتر آکر ملاقاتیں کیں۔ یوں سکوت ٹوٹنے لگا اور سیاسی اتحاد کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ 2013ء کے الیکشن میں مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ سے ایک ایم پی اے منتخب کرانے میں کامیاب ہوئی تو کئی جگہوں پر اپنا ووٹ بینک بنانے میں کامیاب ہوئی، یوں اہل تشیع کا بکھرا ہوا ووٹ جمع ہونے لگا، حکومت مخالف تحریک میں نئے اتحاد وجود میں آئے تو پاکستان میں اتحاد بین المسلمین کے عظیم الشان مظاہر دیکھنے کو ملے۔ گلگت بلتستان کے الیکشن میں بھی اس جماعت نے پہلی بار الیکشن میں حصہ لیا اور اپنے دو نمائندے جتوانے میں کامیاب ہوئی اور گلگت بلتستان میں ووٹوں کے اعتبار سے دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری۔
یہ بات یاد رہے کہ تحریک انصاف کو موجودہ پوزیشن پر آنے کیلئے بیس سال لگے، سیاسی قد کاٹھ بنانے کیلئے وقت درکار ہوتا ہے، سیاسی تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، میدان میں غلطیاں ہوتی ہیں اور ان غلطیوں کی روشنی میں اپنے سفر کو جاری و ساری رکھنا پڑتا ہے۔ اگر ہم ماضی میں شروع کئے گئے سیاسی سفر کو جاری رکھتے تو یقیناً آج ہمارا ووٹ بینک بن چکا ہوتا ہے اور کئی افراد پارلیمنٹ میں بھی پہنچ چکے ہوتے، سیاسی میدان کو دو دھاری تلوار سے بھی تشبیہ دی جاتی ہے، آج جب ہم حزب اللہ کی مثال دیتے ہیں تو یہ یاد رکھنا چاہیئے کہ انہیں بھی اس مقام تک پہنچے میں دہائیاں لگی ہیں۔ امید کرتے ہیں ایم ڈبلیو ایم اپنے سیاسی تجربات کی روشنی میں غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے آگے بڑھے گی اور ملت کا نام روشن کرے گی۔ وقتی مفاد کے بجائے دائمی مفاد کو مقدم جاننا ہوگا، اپنی توانائیوں کو غیر ضروری کاموں میں صرف کرنے سے اجتناب کرنا ہوگا۔ الیکشن میں اتحاد بنانے اور براہ راست امیدوار کھڑے کرنے سے قبل اپنی توانائی اور مالی امور کو دیکھ کر پاوں پھیلانا ہوں گے۔ جہاں جہاں یقین ہو کہ تھوڑی محنت سے سیٹ نکل سکتی ہے، وہاں پر اپنی توانائیاں صرف کی جائیں اور جہاں اندازہ ہو کہ امیدوار کامیاب نہیں ہو پائے گا، وہاں جانے سے گریز کرنا ہوگا۔ سیاسی کونسل اور تھینک ٹینکس بنانے کے ساتھ اس کی آراء کی روشنی میں اپنے امور کو آگے بڑھانے میں کامیاب ہوئے تو ایک دن ضرور پارلیمنٹ میں اپنی نمائندے بھیجنے میں کامیاب ہوں گے۔ مذہبی جماعت ہونے کے ناطے قائد شہید کی نصیحت کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی رنگ کو مذہبی رنگ پر غالب نہ آنے کی پالیسی کو قائم رکھنا بھی بیحد ضروری ہوگا۔
تحریر۔۔۔۔این اے بلوچ