وحدت نیوز(آرٹیکل) سرگودھا کے نواحی چک95شمالی کے مقام پر، ایک پیر صاحب کے آستانے پر، بیس آدمی موت کے گھاٹ اتر گئے، قاتل کا تعلق طالبان سے نہیں تھا، نہ ہی قتل کرنے والا کسی کالعدم تنظیم کا سرپرست یا ممبر تھا، بلکہ  اس مرتبہ قاتل تو الیکشن کمیشن  کا افسر ہونے کے ساتھ ساتھ ایک روحانی بابا   اور ایک درگاہ کا متولی بھی تھا۔ یعنی ایک قاتل میں کئی خوبیاں تھیں، نام اس کا تھا عبدالوحید اور کام اس کا لوگوں کے گناہ جھاڑنا تھا،  لوگ اپنے گناہوں کو بخشوانے کے لئے پیر صاحب کے پاس آتے تھے  اور پیر صاحب  ڈنڈے مار مار کر ان کے گناہ جھاڑتے تھے، لیکن اس مرتبہ شاید پیر صاحب کچھ زیادہ ہی جلا ل میں تھے، انہوں نے گناہوں کے ساتھ ساتھ بندے بھی جھاڑ دئے۔ البتہ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں عام طور پر  لوگ بہت سارے گناہوں کو گناہ سمجھتے ہی نہیں ، پھر نجانے یہ لوگ کون سے گناہ بخشوانے گئے ہونگے۔ مثلا ٹیکس چوری، بجلی چوری ، پانی چوری اور جنگلات سے لکڑی چوری وغیرہ کو عام طور پر گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ، اسی طرح اسی طرح کھانے پینے کی اشیا میں ملاوٹ، کم تولنے ، بیوی بچوں بچوں کے ساتھ بد اخلاقی، ہمسائے کو اذیت اور جھوٹی قسم وغیرہ کو بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا اور اگر ان کاموں کو کوئی گناہ سمجھے بھی تو انہیں بخشوانے کی فکر بہت کم لوگوں کو ہوتی ہے۔

یہ بیس آدمی اپنے گناہوں کو بخشواتے ہوئے اپنی جانیں تو گنوا بیٹھے تاہم ایک پیغام قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لئے بھی چھوڑ گئے ہیں کہ اس سلسلے میں بھی تحقیق کی جانی چاہیے کہ وہ کونسے گناہ تھے جو لوگ پیر صاحب سے بخشوانے کے لئے آیا کرتے تھے۔ ممکن ہے اگر اس زاویے سے تفتیش کی جائے تو مزید کچھ پردہ نشینوں کے نام بھی سامنے آئیں۔

اس واردات کے بعد خود پاکستان کے روحانی مشائخ اور سجادہ نشین حضرات کی طرف سے بھی کوئی مشترکہ بیانیہ  آنا چاہیے تھا لیکن ممکن ہے ان میں سے بعض کے نزدیک ایسے موقع پر کوئی ردعمل دکھانا اور بیانیہ دینا بھی گناہ ہو!۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں کا ذکر آیا  ہے تو عرض کرتا چلوں کہ  گزشتہ  روز  سیالکوٹ کے نواحی علاقے رنگ پورہ میں بھی ایک عجیب واردات ہوئی ہے۔اس میں بھی تحریک طالبان سمیت کسی کالعدم تنظیم  کا کوئی ہاتھ نہیں، واقعہ کچھ یوں ہے کہ چندا نامی شخص شامی کباب کی ریڑھی لگاتا تھا، اس نے ریڑھی کی کمائی سے کچھ سیٹھ  قسم کے لوگوں  سے ایک دکان خریدی اور پھر اسی میں کباب بیچنے شروع کئے، سیٹھ برادران نے ستر لاکھ روپے وصول کرکے بھی رجسٹری اس کے نام نہیں کی اور کچھ دن پہلے انہوں نے وہی دکان کسی اور کو آگے بیچ دی ،  اور پھر گزشتہ روز دکان کا قبضہ لینے چلے گئے۔ دکان پر جھگڑا ہوا اورچندا نے حملہ آوروں پر گولی چلائی  ، گولی لگنے سےموقع پر ہی ایک آدمی ہلاک ہو گیا،  اس کے بعد  سیٹھ لوگوں نے اسے کو پکڑ کر مارنا شروع کردیا اور پھر کھمبے سے باندھ کر اتنا مارا کہ اس کی ریڑھ اور بازو کی ہڈیاں بھی ٹوٹ گئیں اور سر پر لوہے کے راڈ لگنے سے مغز بھی باہر آگیا۔

یہ سب کچھ دن دیہاڑے ہوا اور اس میں تقریبا ایک گھنٹہ لگا، اس ایک گھنٹے میں کسی قانون کے محافظ نے ادھر پر نہیں مارا ، کوئی پولیس کی گاڑی بھول کر بھی ادھر سے نہیں گزری اور شہریوں کی سلامتی سے متعلق کسی حساس ادارے کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی۔

خیر پولیس اور خفیہ اداروں سے تو ہمیں شکایت رہتی ہی ہے لیکن مجھے تعجب ہوا ان لوگوں پر جو اس سارے واقعے کو اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے لیکن کسی نے بھی   آگے بڑھ کر اس وحشتناک کارروائی کو روکنے کی کوشش نہیں کی۔۔۔

یہ اکیسویں صدی کا واقعہ ہے کہ جب شہر اقبالؒ کے نزدیک  ، کسی انسان کو  سرعام  ایک  جانور کی طرح باندھ کر، ڈنڈوں اور پتھروں کے ساتھ مارا گیا لیکن  قانون کے ماتھے پر شکن تک نہیں آئی، مساجد کے سپیکروں سے کافر کافر کے نعرے لگانے والے ، کسی نہتے مسلمان کی مدد کو نہیں پہنچے،  صرف اپنے آپ کو مسلمان سمجھنے والے اور اپنے آپ کو مصلح اعظم کہلوانے والے اس آزمائش کے وقت کہیں دکھائی نہیں دئیے،  دفاع حرمین الشریفین کیلئے مرمٹنے کی باتیں کرنے والے اپنی ہی سرزمین پر ایک کلمہ گو مسلمان کا دفاع نہیں کر سکے، سارادن مسجدوں سے اذانیں دینے  اور نماز پڑھنے اور پڑھانے والے مرد مومن ،  ایک انسان کو اس طرح درندگی کا نشانہ بننے سے نہ بچا سکے۔

سوال یہ ہے کہ  اگر ایسا ہی سلوک ،کسی عورت کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی ہمارا معاشرہ  اسی طرح تماشائی بنا رہتا!؟

کیا اگر یہی سلوک کسی کالعدم تنظیم کے کسی ممبر کے ساتھ کیا جاتا تو کیا پھر بھی  اس کے پیٹی بھائی حرکت میں نہ آتے!؟

کیا اگر ریڑھی بان کے بجائے ، کسی سیٹھ ، زردار یا وڈیرے کے ساتھ یہی کچھ کیا جاتا تو پھر بھی پولیس موقع پر نہ پہنچتی!؟

عجیب بے حس لوگ ہیں ہم کہ اگر کہیں پر کوئی جعلی پیر بیس آدمیوں کو قتل کر دے یا  پھرکہیں پر بیس آدمی مل کر کسی ایک آدمی کو درندگی کا نشانہ بنادیں، توہم لوگ وقت پر کوئی ردعمل نہیں دکھاتے، اور اسی ہمارے رد عمل نہ دکھانے کی وجہ سے ہی ہم پربرے لوگوں کا تسلط ہے۔ ظالم کو دیکھ کر  ہم جیسے خاموش رہنے والے لوگ پھر کوچہ و بازار میں یہ   گلے بھی کرتے ہیں کہ  کہیں پر ہماری شنوائی نہیں ہوتی اور کہیں سے ہمیں انصاف نہیں ملتا!۔  لگتا ہے کہ ہم بھول گئے ہیں کہ  اس دنیا میں جو بولتا ہے اسی کی شنوائی ہوتی ہے اور جو جدوجہد کرتا اور قربانی دیتا ہے اسی کو انصاف ملتا ہے۔

ہم لوگ  عدل و  انصاف کے تو متمنی ہیں  لیکن ظلم کے خلاف ردعمل نہیں دکھاتے، ہم انسانی مساوات کے تو نعرے لگاتے ہیں لیکن انسانی زندگی کی قدروقیمت کے قائل نہیں ہیں، ہم کافروں کو مارنے کے تو شوقین ہیں لیکن مسلمانوں میں صلح وصفائی  سے بے فکر ہیں، ہم دنیا بھر کی اصلاح پر تو کمر باندھے ہوئے ہیں لیکن اپنے گھر اور محلے کی اصلاح سے غافل ہیں ۔

شاید ہم میں سے  کچھ کے نزدیک ، پانی چوری، بجلی چوری اور ٹیکس چوری کی طرح ظلم  کو ہوتا دیکھ کر خاموش ہوجانا بھی کوئی  گناہ نہیں ہے۔

 

 

تحریر۔۔۔۔نذر حافی

This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

وحدت نیوز (لاہور) پانامہ کیس کا فیصلہ ثابت کرے گا کہ ملک میں آئین و قانون کی حکمرانی ہے یا بادشاہت کا راج،عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر ہیں،کرپشن کیخلاف تادیبی کاروائی نہ ہوئی تو دہشتگردی اور ناامنیت کو فروغ ملے گا،عدل سے خالی معاشرے میں امن کا قیام ناممکن ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ مبارک موسوی نے صوبائی سیکرٹریٹ میں لاہور ڈویژن کے کارکنوں کے اجلاس سے خطاب میں کیا ۔

انہوں نے کہا ملک کو مشرقی وسطیٰ کے پراکسی وار سے دور رکھنے میں سیاسی و مذہبی جماعتوں کو کردار ادا کرنا ہوگا،دشمن ہمیں مختلف محاذوں پر الجھا کر ملکی ترقی روکنے کی سازش میں ہے،حرمین شریفین کا دفاع ہر مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے،آل سعود کی بادشاہت کو بچانے کے لئے حرمین شریفین کا نام استعمال کرنا امت مسلمہ کے ساتھ ظلم ہے،شام پر ا،مریکی جارحیت کے بعد نام نہاد مسلم اتحاد کے عزائم سب پر عیاں ہوگئے ہیں،اسرائیل اور امریکی پالیسی کو فالو کرنے والے کبھی مسلم امہ کے خیر خواہ نہیں ہو سکتے،موجودہ حالات مسلم امہ کے درمیان اختلافات کے خاتمے کے لئے کردار ادا کرنے کا وقت ہے،ایسے میں متنازعہ اتحاد کیساتھ شمولیت ہماری غیر جابندارانہ حیثیت پر سوالیہ نشان ہوگا،امید ہے کہ سابقہ تلخ تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمارے حکمران اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرینگے،تاکہ مشرقی وسطیٰ میں جاری اس پراکسی وار کے دلدل سے وطن عزیز کو دور رکھ سکے۔

وحدت نیوز(ملتان) مجلس وحدت مسلمین جنوبی پنجاب کے سیکرٹری جنرل علامہ اقتدار حسین نقوی نے کہا ہے کہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو سزائے موت احسن اقدام ہے،پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف امریکن بلاک کے جاسوسوں کیخلاف بھی عملی اقدامات کی ضرورت ہے،بھارت امریکہ اور عرب ممالک سی پیک کیخلاف مشترکہ منصوبہ بندی کے تحت پاکستان کیخلاف سازشوں میں مصروف ہیں،سعودی آفیشلز کی کالعدم جماعتوں کے لیڈروں سے ملاقاتیں اور انتہا پسند مدارس کے دوروں پر حکومت نوٹس لے،ہم انہی عرب مہربانوں کے بچھائے کانٹے اب تک چن رہے ہیں،ہمارے کمزور اور مصلحت پسندانہ خارجہ پالیسی ہی ملکی مشکلات میں اضافے کا سبب ہے،ملتان میں ولادت باسعادت امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب کے موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صوبائی سیکرٹری سیاسیات انجینیئر سخاوت علی،ملک عامر کھوکھر،وسیم عباس زیدی اور دیگر رہنما موجود تھے۔ علامہ اقتدار نقوی نے کہا کہ ہم کشمیر میں بھارتی مظالم کی پور زور مذمت کرتے ہیں اور مظلوم کشمیریوں دکھ میں برابر کے شریک ہیں،کشمیر ،فلسطین اور یمن پر جارحیت کرنے والے انشااللہ جلد رسوا ہونگے،شام پر حملے کے بعد 39 ملکی اتحاد کا اصل چہرہ سامنے آگیا ہے،ہمارے حکمران ،سیاست دانوں اور پالیسی ساز اداروں کو جان لینا چاہیئے کہ اس اتحاد کا اصل ماسٹر مائنڈ امریکہ اور اسرائیل ہے جو اپنی مفادات کے لئے مسلم امہ کو مسلکی بنیاد پر تقسیم کر نے کی سازشوں میں مصروف ہے۔ علامہ اقتدار نقوی نے مزید کہا کہ حکومت اور بالخصوص وزیراعظم نواز شریف کی جانب سے کلبھوشن کے معاملے پر خاموشی معنی خیز ہے، حکومت نے کلبھوشن یادیو کے کیس کو عالمی سطح پر اُجاگر نہیں کیا۔

وحدت نیوز(آرٹیکل) شیعہ کے اصطلاحی معانی میں سے ایک خاندان نبوت و رسالت کے ساتھ محبت و دوستی ہے اور آیات و روایات میں اس بات کی زیادہ تاکید کی گئی ہے ۔اس کے علاوہ بےشمار احادیث  ایسی ہیں جن میں  حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم قرار دیا گیا ہے یہاں تک کہ حضرت علی علیہ السلام سے محبت و دوستی  کو ایمان اور ان سے دشمنی و عداوت کو نفاق کا معیار قرار دیا گیا ہے ۔سیوطی آیت کریمہ {وَلَتَعْرِفَنَّ ہُمْ فیِ لَحْن ِالْقَوْل} {اور آپ انداز کلام سے ہی انہیں ضرور پہچان لیں گے}کی تفسیر میں ابن مردودیہ اور ابن عساکر سے نقل کرتے ہیں کہ :آیت کریمہ میں لحن القول سے مراد علی ابن ابی طالب کی نسبت دشمنی اور کینہ رکھنا ہے ۔ اسی طرح ایک اور روایت جسے ابن مردودیہ نے نقل کیا ہے :{ما کنا نعرف المنافقین علی عہد رسول الله{ص}الا ببغضہم علی ابن ابی طالب{ع}} پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں منافقین کو ہم علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عداوت کرنے کے ذریعے پہچانتےتھے ۔نسائی {متوفی 303ھ}نے خصائص امیر المومنین میں ایک باب کا عنوان مومن اور منافق کے درمیان فرق کو قرادیا ہے اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے تین حدیثیں نقل کرتےہیں جن میں آپ ؐفرماتے ہیں :امیر المومنین سے مومن کے علاوہ کوئی اور محبت نہیں کرتا {اسی طرح}منافق کے علاوہ کوئی اور ان سے دشمنی نہیں کرتا ہے ۔

خطیب خوارزمی نے اپنی کتاب المناقب کی چھٹی فصل میں وہ حدیثیں پیش کی ہیں جن میں حضرت علی علیہ السلام اور اہل بیت علیہم السلام کے ساتھ محبت کرنے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس سلسلے میں تقریبا تیس حدیثیں نقل کی ہیں جن کے مضامین اس طرح  کے ہیں:

1۔ {انی افترضت محبۃ علی ابن ابی طالب علی خلقی عامۃ}حضرت علی علیہ السلام کی محبت سب پر واجب ہے ۔

2۔ {لواجتمع الناس علی حب علی ابن ابی طالب لما خلق الله النار} اگر تمام انسان علی ابن ابی طالب علیہ السلامکی محبت پر متفق ہو جاتےتو خدا وند جہنم کو خلق نہ کرتا ۔

3۔اگر کوئی حضرت نوح علیہ السلامکی اس عمر  کے برابر{جو انہوں نے اپنی قوم کے درمیان گزاری}عبادت کرے اور کوہ احد کے برابر سونا خدا کی راہ میں خرچ کرے اور ہزار مرتبہ حج بیت اللہ کرے اور صفاو مروہ کے درمیان خدا کی راہ میں قتل ہو جائے لیکن {حضرت}علی علیہ السلام سے محبت نہ رکھتا ہو تو وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔

4۔{من احب علیا فقد احبنی و من ابغض علیا فقد ابغضنی}جس نے علی علیہ السلام سے محبت کی گویا اس نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم   سے محبت کی ہے اور جس نے علی علیہ السلام سے دشمنی کی گویا  اس نے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دشمنی کی ہے ۔

5۔{ان ملک الموت یترحم علی محبی علی ابن ابی طالب کما یترحم الانبیاء} ملک الموت جس طرح انبیاء پر رحم کرتا ہے اس طرح علی علیہ السلام کے چاہنے والوں پر بھی رحم کرتا ہے ۔

6۔{من زعم انہ امن بی و بما جئت بہ و هو یبغض علیا فی و کاذب لیس بمومن}جوشخص پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور قرآن مجید پر ایمان  رکھتا ہومگر علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی رکھتاہوتو وہ شخص جھوٹا ہے اور مومن نہیں ہے ۔

 اسی طرح شبلنجی شافعی  نےنور الابصار میں ان حدیثوں کو نقل کیاہے :

1۔مسلم نے حضرت علی علیہ اسلام سے نقل کیا ہے :{والذی فلق الحبۃ و برا النسمۃ انہ لعہد النبی الامی بانہ لا یحبنی الا مومن و لا یبغضنی الا منافق}خدا کی قسم جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور ذی روح چیزیں پیدا کیں یہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وعدہ ہے کہ مومن کے سوا مجھ سے کوئی محبت نہیں کرتا اور منافق کےسوا کوئی مجھ سےبغض نہیں کرتا ۔

2۔ترمذی ابو سعید خدری سے نقل کرتے ہیں :{کنا نعرف المنافقین ببغضہم علیا} ہم منافقین کو علی ابن ابی طالب علیہ السلام سے دشمنی اور عدوات کرنے کے ذریعے پہچانتے تھے۔

حضرت علی علیہ السلام کی محبت کے واجب ہونے پر بے شمارحدیثیں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل ہوئی ہیں کہ ان سب کو یہاں بیان کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔لہذامذکورہ احادیث کی روشنی میں حقیقی مسلمان وہ ہے جو حضرت علی علیہ السلام کی محبت کو واجب و لازم سمجھےگرچہ خواہشات نفسانی میں گرفتار افراد حضرت علی علیہ السلام سے دشمنی و عداوت  رکھتے تھے اور کبھی اسے آشکار کرتے تھے اسی وجہ سے حضرت علی علیہ السلام سے محبت، ایمان اور ان سے عداوت اور دشمنی کونفاق کا معیار سمجھا گیا ۔ اس صورت حال میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض اصحاب امیر المومنین علیہ السلام سے دوسروں کی بہ نسبت زیادہ محبت کرتے تھے اورآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فرامین پر توجہ کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کے گفتار و کردار کو اپنے لئے اسوہ ونمونہ قرار دیتے  تھے۔

گذشتہ احادیث سے حضرت علی علیہ السلام کی افضلیت بھی واضح ہو جاتی ہے کیونکہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےنزدیک آپ  سب سے زیادہ عزیز تھے کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی خواہشات نفسانی کی بنا پر کسی سے محبت نہیں کرتے بلکہ عقل و حکمت اس چیز کا تقاضا کرتی تھی ۔ ان کے علاوہ آپ ؑکی افضلیت کے بارے میں بہت زیادہ احادیث موجود ہیں ۔ آیت مباہلہ سے بھی یہ مطلب واضح ہوجاتاہے ۔ کیونکہ اس آیت میں حضرت علی علیہ السلام کو نفس پیغمبرصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  قرار دیا گیا ہے حالانکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم انسانوں میں سب سے زیادہ افضل تھے لہذا نفس پیغمبر کو بھی ان شرائط وخصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ۔

محمدبن عائشہ سے پوچھا گیا کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب میں سب سے افضل کون ہے ؟ انہوں نے جواب دیا:ابوبکر ،عمر، عثمان ،طلحہ اور زبیر ۔ان سے دوبارہ سوال ہوا پھر علی ابن ابی طالب کس درجہ پر فائز ہیں ؟ انہوں نے جواب دیا : تم لوگوں نے اصحاب کے بارے میں سوال کیا تھا نہ اس شخص کے بارے میں جو نفس پیغمبر تھے ۔ اس کے بعد آیت مباہلہ کی تلاوت کی اس کے بعد کہا:پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اصحاب کس طرح اس شخص کےمانند ہو سکتے ہیں جو نفس پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ اسی طرح احمد ابن حنبل کے بیٹے عبد اللہ نےاپنےباپ سے پوچھا خلفاء کی افضلیت کےبارے میں آپ کا کیا نظریہ ہے ؟ اس نے جواب دیا :ابو بکر ،عمر اور عثمان اسی ترتیب کے ساتھ افضلیت رکھتےہیں ۔عبد اللہ نے دوبارہ پوچھا پھر علی ابن ابی طالب علیہ السلام کس درجے پر فائز ہیں ؟انہوں نے جواب دیا کہ اے بیٹے: علی ابن ابی طالب کا تعلق ایسے خاندان سے ہے کہ کسی کو ان کے ساتھ مقایسہ نہیں کیا جا  سکتا ۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت زہراء سلام اللہ علیہاسے فرمایا تھا؟ تمھارا شوہر میری امت میں سب سے بہتر ہے اس نے سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور علم و حلم کے اعتبار سے وہ دوسروں  پر برتری رکھتاہے ۔{ ان زوجک خیر امتی اقدمہ اسلاما و اکثرہم علما و افضلہم حلما} اسی طرح جب ایک پرندے کا بھنا گوشت آپ  ؐکو پیش کیاگیا تو آپ ؐنے خدا وند متعال سے درخواست کی کہ اپنی مخلوقات میں سے سب سے زیادہ عزیز فرد کو میرے ساتھ کھانے میں شریک قرار دے اسی وقت حضرت علی علیہ السلا م پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔

جابر بن عبد اللہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:{ انہ اولکم ایمانا معی ، واوفاکم بعہد الله تعالی و اقومکم بامر الله و اعدکم فی الرعیۃ و اقسمکم بالسویۃ و اعظمکم عند الله فریۃ}حضرت علی علیہ السلام سب سے پہلے ایمان لانے میں اور خداوند متعال کے عہد کو پورا کرنے میں سب سے زیادہ وفادار اور احکام الہی کے اجراء میں سب سے زیادہ پایدار اور لوگوں کی نسبت سب سے زیادہ عادل ہے اور وہ بیت المال کی تقسیم میں سب سے زیادہ مساوات سےکام لیتاہے اور خداوند متعال کی نظر میں ان کا مقام سب سے زیا دہ برتر ہے ۔جابر اس کے بعد کہتےہیں کہ آیت شریفہ{إِنَّ الَّذِينَ ءَامَنُواْ وَ عَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُوْلَئکَ ہُمْ خَيرْ الْبرَيَّۃ}حضرت علی علیہ السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے اور جب بھی حضرت علی علیہ السلام وارد ہوتے تو سبھی کہتے تھے {قد جاءخیر البریۃ}  اس  سلسلے میں اور بھی حدیثیں موجود ہیں لیکن یہاںسب کو بیان نہیں کر سکتے ۔

خلاصہ یہ کہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جہاں توحید اور نبوت کے مسائل پیش کرتےتھے وہی امامت کے مسئلے کو بھی بیان کرتے تھے اور اپنے عمل و بیان سےحضرت علی علیہ السلام کی شخصیت کو سب پر ظاہر کر دیتے تھے اسی بنا پر اس زمانے میں  ایک گروہ حضرت علی علیہ السلام کے فضائل و کمالات کا شیفتہ ہو اتھا اور مسلمانوں کے درمیان وہ  شیعہٴ علی علیہ السلام کے نام سے پہچاناجاتا تھا اور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی ہمیشہ اس گروہ کی ستایش کرتےرہتےتھے اور انہیں قیامت کے دن کامیاب وکامران ہونے کی بشارت دیتے تھے۔

حوالہ جات:
  ۱۔ محمد،30
  ۲۔الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
۳۔  الدر المنثور، ج7 ،ص 443۔
  ۴۔خصائص امیر المومنین علی ابن ابی طالبعلیہ السلام،ص 155 – 157 ۔
۵۔  المناقب ،خوارزمی، ص 64 – 79۔
۶۔  نور الابصار ،ص 160،منشورات الرضی قم۔
۷۔  الریاض النضرۃ  ،محب الدین طبری ،و قادتناکیف نعرفھم ،ج1 ،آیۃ اللہ میلانی ۔
  ۸۔آل عمران 61۔
  ۹۔البیہقی ،المحاسن ج1 ص 39،الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1 ،ص 574۔
۱۰۔  طبقات الحنابلۃ ،ج2 ،ص 120 الامام الصادق و المذاہب الاربعۃ ،ج1،ص 575۔
  ۱۱۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
  ۱۲۔خطیب خوارزمی ،المناقب ،فصل نہم ،حدیث  111 ،ص 106۔
  ۱۳۔خطیب خوارزمی ،المناقب حدیث 120 ،ص 111 – 112۔


تحریر ۔۔۔۔محمد لطیف مطہری کچوروی

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے مولود کعبہ حضرت علی علیہ السلام کے یوم ولادت کے موقعہ پرعالم اسلام کو مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ خاندان رسالت ﷺ سے وابستگی نجات کی ضامن ہے۔اہل بیت اطہار علیہم السلام کی خوشی میں خوش اور ان کے مصائب پر غمگین ہونا ہی حق مودت اور اجر رسالت ہے۔حضرت علی علیہ السلام کی جرات، تدبر، حکمت اور بصیرت ہماری زندگی کے ہر شعبہ میں رہنمائی کے لیے بہترین رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ عصر حاضر کی طاغوتی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لیے خیبر شکن مولا علیؑ کے افکار کو شعار بنانا ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ یہود و نصاری عالم و اسلام کو شکست دینے کے لیے انہیں اسلامی فکر سے دور لے جا رہے ہیں۔مغربی میڈیا کے ذریعے اسلامی تشخص کو بدنما انداز میں پیش کیا جارہا ہے تاکہ لوگ دین اسلام سے متنفر ہو کر دور ہوں۔ثقافتی یلغار کے ہتھیار سے معاشرتی و اسلامی اقدار کو تباہ کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر اسلامی کی حقیقی تعلیمات کا مطالعہ کرنا ہے تو رسول ﷺ و آل رسولﷺ کے فرمودات اور کردار پر نظر دہرائی جائے۔حضرت علی ؑ کی زندگی کے ہر لمحہ میں امت مسلمہ کے لیے کوئی نہ کوئی درس موجود ہے۔چودہ سو سال قبل جو پروپیگنڈہ اہلبیت ؑ کے خلاف کیا جا رہا تھا آج اہلبیت ؑ کے ماننے والے بھی اسی کا شکار ہیں۔

انہوں نے کہا رسول آل رسولﷺ سے محبت کا اظہارزبانی دعووں کی بجائے اپنے عمل و کردار سے کیا جانا چاہیے تاکہ ہمارے قول و فعل میں حقیقی محب اہلبیت ؑ ہونے کی جھلک نظر آئے۔ 13رجب کے پرمسرت موقعہ پر مجلس وحدت مسلمین کے تمام صوبائی و ضلعی دفاتر اور مرکزی سیکرٹریٹ میں تقریبات کا بھی انعقاد کیا گیا۔ جن میں مرکزی و صوبائی رہنماؤں نے شرکت کی۔مرکزی سیکرٹریٹ میں منعقدہ تقریب سے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی رہنما علامہ اصغر عسکری نے خطاب کرتے ہوئے حضرت علی علیہ السلام کی سیرت اور زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی۔اس موقعہ پر ملک اسرار حسین اور میثم تمار نے اپنے اپنے انداز میں نذرانہ عقیدت پیش کیا۔

وحدت نیوز(اسلام آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے یوم دستور کے موقعہ پر مرکزی میڈیا سیل سے جاری اپنے بیان میں کہا ہے کہ آئین کا مکمل نفاذ ملک کو درپیش تمام مشکلات سے چھٹکارے کا واحد اور بہترین حل ہے۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین ایک مقدس دستاویز ہے جس کی رو سے ملک میں بسنے والے ہر فرد کی مذہبی آزادی بنیادی حقوق میں شامل ہے۔یہ آئین بدعنوان عناصر کی حوصلہ شکنی کرتا ہے۔آئین پر عمل سماجی انصاف کے فروغ اور معاشرتی برائیوں کے خاتمے میں معاون ثابت ہو سکتا ہے ۔آئین پاکستان ملک کی جمہوری قوتوں کا ایک نادر تحفہ ہے جو تمام شہریوں کے بنیادی حقوق کے بلاامتیاز تحفط کو یقینی بناتا ہے۔تاہم بدقسمتی سے آئین کی بالادستی صرف اخباری بیانات اور نعروں تک محدود ہے یہاں آئین و قانون کی بجائے اختیارات کی حکمرانی ہے۔ آئینی بالادستی کا راگ الاپنے والی قوتیں اس کے نکات کی خود دھجیاں اڑانے میں مصروف ہیں۔اگر آئین پاکستان پر عمل کیا جاتا تو آج پاکستان کی صورتحال مختلف ہوتی۔دہشت گردی، بدعنوانی، رشوت ستانی،اقرباپروری سمیت تمام بے قاعدگیوں کی بنیادی وجہ صاحبان اقتدار کا اپنے اختیارات سے تجاوز ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دن حکمران اگر آئین کی پاسداری کا پوری قوم سے وعدہ کرلیں اور پھر اس پر ثابت قدم رہیں تو ملک میں حقیقی جمہوریت آ سکتی ہے۔ شخصی حکومت کو جمہوریت کا نام دے کر آئین کا مزاق اڑایا ملک و قوم کے ساتھ بدترین دھوکہ ہے۔انہوں نے کہا کہ آج کے دن تمام سیاسی قوتوں کو آئین کی بالادستی کو یقینی بنانے کا عہد کرنا چاہیے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree