وحدت نیوز (تہران) رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای کہا ہے کہ ایران کی مسلح افواج اپنی ترقی و پیشرفت اور آمادگی کی رفتار کو تیز کرکے اس قدر طاقتور ہوجائیں کہ دشمن، انقلاب اسلامی کے خلاف جارحیت کا خیال بھی اپنے ذہن میں لانے کی جرائت نہ کرسکے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے جمعرات کی صبح شمالی ایران کے شہر نوشہر میں بّری فوج کے اعلٰی افسران اور کمانڈروں سے خطاب کرتے ہوئے، ایرانی قوم کی استقامت، دو ٹوک موقف اور سامراجی پالیسیوں کے مقابلے میں سرتسلیم خم نہ کرنے کو، اسلامی انقلاب سے دشمنی کی اہم وجہ قرار دیا۔ اسلامی جمہوری ایران کے سپریم لیڈر نے آٹھ سالہ مقدس دفاع کے دوران ایرانی قوم کی استقامت اور پائیداری کو ایک اہم تجربہ قرار دیا اور کہا کہ ایران دنیا کا ایک خود مختار ملک ہے، انقلاب اسلامی کے بعد سے اپنی پالیسیوں پر پوری شفافیت کے ساتھ عمل پیرا ہے، اور کسی بھی طاقت سے ڈرتا ہے اور نہ ہی اسے کسی کی مخالفت کی کوئی پروا ہ ہے۔ آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے ایرانی قوم کی آزادانہ اور حیرت انگیز تحریک کے مدمقابل دشمنوں کی کھڑی کردہ بھاری بھر کم رکاوٹوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دشمن، اسلامی جمہوریہ ایران کو جھکانے کی فکر میں ہے اور اس کے سامنے پسپائی اختیار کرنے سے دشمنی ختم نہیں ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ ایک ایسی خود مختار حکومت کا وجود، جو تسلط پسند طاقتوں اور ان کے پٹھوؤں کی مخالف ہے، تسلط پسند طاقتوں کے لئے ناقابل برداشت ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی عوام سے دشمنی پر اتر آئے ہیں۔ سید علی خامنہ ای نے کہا کہ یہ سمجھنا غلط ہے کہ "اگر ہم فلاں بات نہ کریں یا فلاں کام انجام نہ دیں اور دشمن کو مراعات دیں، تو دشمنیاں کم ہوجائیں گی۔" آیت اللہ العظمٰی سید علی خامنہ ای نے دنیا کی آزاد قوموں اور خود مختار ملکوں کی جانب سے ایران کی خود مختار پالیسوں کی حمایت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کی قومیں، ایرانی عوام کی ترقی و پیشرفت اور بڑی طاقتوں کے مقابلے میں اپنے مفادات کے بھرپور دفاع کو دیکھ کر وجد میں آجاتی ہیں اور ایرانی عہدیداروں کے غیر ملکی دوروں میں جہاں کہیں بھی حکومتوں کی جانب سے لوگوں کو اظہار کا موقع فراہم کیا جاتا ہے، ایران اور اس کے دو ٹوک موقف کی حمایت میں پرجوش طریقے سے نعرے لگاتی ہیں۔

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے کونسلررجب علی کربلائی نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومتوں کے بیڈ گورننس ، بد عنوانی اور کرپشن کی وجہ سے عوام کے مقدر میں صرف لوڈ شیڈنگ ، غربت ، مہنگائی ، علاج معالجہ سے محرومی ، جہالت اور مستقبل کے سہانے خوب ، سیاسی وعدوں اور راہداریوں کے خواب ہی لکھے ہیں۔ لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ جسے مسلم لیگ (ن) اور خاص طور پر میاں شہباز شریف نے چھ ماہ میں ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ ساتھ ہی کہا تھا کہ اگر دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ کرسکا تو اپنا نام بدل لوں گا۔ لیکن دونوں وعدے پورے نہیں ہوئے۔ کیونکہ ہماری سیاست نام ہے جھوٹے وعدوں کا ، عوام کو بے وقوف بنانے کا اور سارے جمہوری نظام میں سے جمہور کو خارج کرنے کا ، بے شک ساری حکومتی ترجیحات منصوبوں اور پالیسیوں کا جائزہ لیں ، اس میں عام شہری ، عوام کہیں نظر نہیں آئیں گے ، سوائے تقریروں کے ، پبلسٹی کے اور نمائشی کاموں کے ، آج بھی ڈھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہزاروں اسکولوں میں نہ استاد ہیں اور نہ بنیادی سہولیات میسر ہیں۔ہزاروں مریض بے بسی کے عالم میں دھکے کھاتے اور علاج سے محروم نظر آرہے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ سارے پاکستان کے وسائل ایک دو شہروں پر لگا دیے جائیں ۔ قوم جاہل رہیں، کروڑوں بچے تعلیم سے محروم رہیں ، وطن عزیز میں عام اور غریب شہریوں کو علاج معالجہ میسر نہ ہو، اکثریت لوگ پینے کے پانی دستیاب نہ ہو، اسکولوں سے اساتذہ اور بنیادی لوازمات غائب ہوں اور لوگوں سے دو وقت کی روٹی چین کر اربوں روپے میٹرو بس پر لگا دیے جائیں اور ہزاروں ٹھنڈی ٹھار بسیں مہیا کرکے پبلسٹی کے پہاڑ کھڑے کر دیے جائیں اور اس پہ ستم یہ کہ اشتہار اور پبلسٹی پر اتنی بڑی رقم خرچ کرتے ہیں جن سے ہزاروں گھروں کے چولہے جل سکتے ہیں۔لاکھوں بچے سکول جا سکتے ہیں اور ہزاروں مریضوں کو ادویات اور علاج معالجہ فراہم ہوسکتی ہیں مگر حکومت کی ترجیح عام انسان ، محروم شہری اور جمہور نہیں بلکہ نمائشی کارنامے اور پوائنٹ اسکورنگ ہیں جن کی چمک سے عوام کو دھوکہ دے کر ووٹ حاصل کیے جا سکیں۔

وحدت نیوز (سکردو) سانحہ منٰی کے افسوسناک اور دلخراش واقعے پر اسکردو میں ایک پریس کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجلس وحدت مسلمین، آل پاکستان مسلم لیگ، پاکستان پیپلز پارٹی، انجمن تاجران اسکردو بلتستان، پاکستان تحریک انصاف اور تحفظ حقوق بلتستان کے رہنما شریک تھے۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا علی رضوی نے کہا کہ سب سے پہلے سانحہ منٰی کے افسوسناک اور دلخراش واقعے پر پوری ملت اسلامیہ کو تعزیت پیش کرتے ہیں اور اس واقعے کو سعودی حکومت کی مجرمانہ غفلت اور بدانتظامی کا نتیجہ قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی شہزادے کی ہائی پروفائل موومنٹ اور رعونت کے بھینٹ ہزاروں حجاج کو چڑھانے کے بعد ایک طرف حرم اللہ کی اہانت کی تو دوسری طرف سعودی حکومت کو یہ توفیق تک نہ ہوئی کہ اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرے، لہٰذا رواں سال دوران حج کرین حادثے کے بعد سانحہ منٰی کی زد میں ہزاروں حجاج آنے کے بعد بھی ذرا سی بھی خفت محسوس نہ کرنا نہایت ہی قابلِ افسوس اور قابلِ مذمت ہے۔ دوسری جانب شہید ہونے والے حجاج کی لاشوں کی بے حرمتی میڈیا کے ذریعے دیکھنے میں آ رہی ہے، وہ بھی افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔ اس افسوسناک سانحے کو پیش آئے کم و بیش دس روز گزر چکے ہیں لیکن تاحال سعودی حکومت کی جانب سے شہید ہونے والے اور زخمی حجاج کی تفصیلی فہرست جاری نہ کرسکنا، انتہائی نااہلی اور مجرمانہ غفلت کا واضح ثبوت ہے۔ شنید ہے کہ ہزاروں حجاج کو اجتماعی قبروں میں دفن کرنے کے لئے سعودی حکومت کوشش کر رہی ہے۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ سعودی حکومت نے یہ عمل دیدہ و دانستہ طور پر کیا ہے اور انکی حکومت حجاج کے انتظامات کو سنبھالنے میں مکمل طور پر ناکام ہوچکی ہے۔

پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ سانحہ منٰی کے دلخراش اور افسوسناک سانحے کے بعد جن ممالک کے حجاج زخمی یا شہید ہوئے، وہ تمام ممالک سراپا احتجاج ہیں اور حجاج کی بازیابی کے لئے آواز بلند کر رہے ہیں، لیکن نواز شریف کی سعودی نواز حکومت نے چپ کا روزہ رکھا ہوا ہے اور پاکستانی گمشدہ حجاج کی بازیابی اور زخمیوں کے علاج معالجے نیز شہداء کے جسد خاکی کو ملک میں لانے کے لئے کوئی اقدام اٹھا نہیں رہا۔ سعودی عرب کی خوشنودی کی خاطر ابھی تک نواز شریف کی طرف سے اس افسوسناک سانحے کی مذمت تک نہیں کی گئی۔ ہماری اطلاعات کے مطابق جب پاکستان ہاوس کے باہر حجاج نے گمشدہ حجاج کی فہرست آویزان کی تو اسکو بھی ہٹا دیا گیا۔ پاکستانی قوم کی بے توقیری جو اس حکومت میں ہوئی تاریخ میں کبھی نہ ہوئی۔ نواز حکومت نے اپنے دیرینہ مراسم اور سابقہ احسانات کی وجہ سے پاکستانی قوم کی توقیر کو نیلام کر دیا ہے اور ابھی تک اس سانحے پر قوم کو حقیقت سے آگاہ نہیں کر سکی ہے، جس کی ہم بھرپور مذمت کرتے ہیں۔

آل پارٹیز کانفرنس بلتستان کے رہنماوں نے کہا کہ ہم اس پریس کانفرنس سے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ او آئی سی چپ کا روزہ توڑ کر سعودی حکومت کے خلاف سانحہ منٰی کا مقدمہ درج کرے اور آئندہ کے حج کے انتظامات او آئی سے اپنے ہاتھ میں لے لے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں حجاج کی لاشوں کی توہین اور گمشدہ حجاج کی بازیابی کے لئے آواز بلند کرے۔ پاکستانی حکومت سعودی حکومت کے خلاف آواز بلند کرے اور پاکستان حجاج کی بازیابی اور شہید ہونے والے شہداء کی لاشوں کو ملک روانہ کروانے کے لئے سعودی حکومت پر دباو ڈالے۔ حکومت گلگت بلتستان بلتستان کے لاپتہ حجاج بالخصوص معروف عالم دین شیخ غلام محمد کی باحفاظت بازیابی کے لئے فوری اور ضروری اقدامات کرے۔ زخمیوں کے علاج اور شہداء کے جسد خاکی کو پاکستان لانے کے لئے حکومت اپنا کردار ادا کرے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سعودی ہسپتالوں میں موجود حجاج کی زندگیاں خطرے میں ہیں، لہٰذا حکومت پاکستان زخمی حجاج کی سکیورٹی کو یقینی بنائے۔ اگر حکومت ہمارے مطالبات پر عملدرآمد شروع نہیں کرتی تو ہم نواز حکومت کو بھی حجاج کی شہادت میں برابر کا شریک قرار دیں گے اور اسکے خلاف احتجاج کا سلسلہ شروع کر دیں گے۔

وحدت نیوز (جیکب آباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان جیکب آباد سے ایم ڈبلیو ایم کے نامزد امیدوار برائے جنرل کونسلر علامہ سیف علی ڈومکی کی الیکشن مہم کے سلسلے میں المرتضی کالونی میں انتخابی جلسہ منعقد ہوا۔ انتخابی جلسے سے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی معاون سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی ، رکن قومی اسمبلی میر اعجازحسین خان جکھرانی ، نامزد امیدوارآغا سیف علی ڈومکی و دیگر نے خطاب کیا۔ اس موقع پر معززین علاقہ اور عوام کی کثیر تعداد شریک ہوئی۔

اس موقع پراجتماع سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ عوام ووٹ کو امانت سمجھ کر اہل اور باکردار افراد کی حمایت کریں،جو عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائیں۔انہوں نے کہا کہ ہم نے اپنے محدود وسائل کے باوجودبلا تفریق رنگ ، نسل اور مذہب عوام کی خدمت کی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ٹوٹی ہوئی سڑکیں، نکاسی آب کا ناکارہ نظام، بجلی ٹرانسفارمر اس حلقے کی عوام کے اہم مسائل ہیں۔

اس موقع پر ایم این اے میر اعجاز حسین جکھرانی نے آغا سیف علی ڈومکی کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہوئے حلقہ کے عوام سے اپیل کی کہ وہ آغا سیف علی ڈومکی کو ووٹ دے کر کامیاب کریں۔ انہوں نے کہا کہ منتخب عوامی نمائندے کی حیثیت سے وہ عوامی مسائل حل کر رہے ہیں۔

وحدت نیوز (آرٹیکل) تمام چشمہ دید گواہوں اور پوری تحقیق کے بعدمذدلفہ سے لوگ طلوعِ فجر کے وقت منیٰ کے لئے روانہ ہوتے ہیں تاکہ جلد ازجلدرمی سے فارغ ہو کرقربانی کر سکیں۔اس دفعہ بھی ایسا ہوا اورجو لوگ قربان گاہ کو جانا چاہتے ہیں وہ لوگ کچھ پہلے ہی گروپ سے نکل جاتے ہیں تاکہ گروپ سے فارغ ہو تو فوری طور پر قربانی کر سکیں۔مذدلفہ سے منیٰ کے لئے کئی راستے ہیں جن میں سب سے مشہور طریق جوہرہ اور طریق سوق العرب سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے اور اس روڈ پر حکومتی انتظامات بھی بہتر ہوتے ہیں جو ہر قدم پر حجاج کو آگے جانے کا کہ رہے ہوتے ہیں اور کھڑے ہونے نہیں دیتے۔اس کے علاوہ بھی کچھ راستے ہیں جن سے بھی لوگ گزرتے ہیں،جن میں روڈ نمبر68 طریق ملک فہد اس راستے کا نام ہے جس پر سانحہ رونما ہوا ۔حاجیوں کے کارواں سالار وں کے اور گروپ لیڈرز کے مطابق اس روڈ پر تمام ممالک کے لوگ تھے اور انھوں نے اس راستے کا جایزہ لیاتو ایک حیرت انگیز بات سامنے آئی کہ اس روڈ پر حکومتی انتظامات دوسرے روڈ کی نسبت کم تھے اور یہ راستہ تھوڑا تنگ بھی تھا اور جس دن یہ سانحہ ہوا منیٰ کے جمرات والے حصہ کے قریب کنٹینرلگا کر روڈ کو مذید تنگ کیا گیا تھا۔جو لوگ حج پر جاچکے ہیں وہ جانتے ہیں کہ لوگ کس قدر بے صبری سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔اسی ددران علامہ فخرالدین جن کا تعلق بلتستان سے ہے مشہور پی ایچ ڈی عالمِ دین و عالمِ باعمل ہے اپنے چند ساتھیوں کے ساتھ اس راستے پر چل نکلے یہ لوگ طریق سوق العرب روڈنمبر68 پر چلے گئے جس کی ایک وجہ دوسرے چند ایک ممالک کے حجاج بھی تھے۔آہستہ آہستہ جب یہ لوگ جمرات کی طرف جارہے تھے تو پلِ خالد کے قریب اچانک انہیں محسوس ہوا جیسے راستہ تنگ ہو رہا ہے اور لوگ آگے کی طرف نہیں جارہے بلکہ رک گئے ہیں۔عام طور پر ایسا بھی ہوتا ہے تھوڑی ہی دیر میں راستہ کھل جاتا ہے اور لوگ پھر چل پڑتے ہیں۔مگر اس دن پولیس اور انتظامیہ وی آئی پی روڈ کو کلیرکرنے میں مصروف تھی ان کے گمان میں نہیں تھا کہ پیچھے کیا سانحہ ہونے والا ہے اچانک دوستوں نے قبلہ سے کہا یہاں سے کسی دوسرے راستے پر ہو جائیں حالات خراب لگ رہے ہیں۔مگر اس شوروغوغا میں قبلہ نے شاید بات کو نہیں سنا وہ جھنڈا ہاتھ میں لیئے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے رہے مگر اچانک حالات یکسر بدل گئے ،سامنے سے سپینگال اور نائیجیریا کے افریقی حجاج ایک دم واپس آنے لگے جس نے حالات کو مخدوش کر دیا تھوڑی ہی دیر میں ہجوم ایک دوسرے پر گر رہے تھے اور پیچھے سے عوام کا سیلاب آگے بڑھتا جارہا تھا۔گروپ لیڈرز اور کاروان سالار کے مطابق اس روڈ پر کم ازکم آٹھ سے نو لاکھ افراد چل رہے تھے ،جیسے ہی رفتار بڑھا قبلہ نے نکلنے کی کوشش کی مگر تب تک بہت زیادہ دیر ہو چکی تھی چاروں طرف سے رفتار بڑھا اور لوگ اس طرح ایک دوسرے میں پھنس چکے تھے کہ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔جولوگ اطراف میں تھے وہ کسی نہ کسی طرح خیموں کے جنگلوں کو توڑ کریا پھلانگ کر اندر جانے کی کوشش کر رہے تھے پھر موت نے اپنابھیانک کھیل شروع کردیا۔ادھر عرب کے تخت نشیں لوگ وی آئی پی پروٹوکول کے ساتھ گاڑھیوں میں بیٹھ کر شیطان کو کنکریاں مارکر چلے گئے تو دوسری طرف مہمان حجاج موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا رہے۔ہمارے ایک چشم دید دوست کاروان سالار حاجی نے کہا کہ کم ازکم آدھے کلومیٹر پر یہ سارا واقعہ رونما ہوا اور لوگ ایک دوسرے کوروندتے ہوے تہ در تہ گر رہے تھے اوپر سے گرمی بھی اپنے انتہا کو چھو رہی تھی۔

 

علامہ فخرالدین اس سانحے میں بلکل وسط کے قریب تھے جہاں سب سے زیادہ اموات ہوئیں۔لوگ پھر ایک دوسرے کو روند کر آگے بڑھے۔پولیس نے افراتفری میں کچھ لاشوں کو اٹھایا مگر فوری امداد نہیں دیا گیا جس کی وجہ سے بھی زیادہ اموات ہوئیں لوگ بہت ذیادہ تعداد میں کچلے گئے تھے اس لئے جو زخمی تھے انھیں ہسپتالوں میں منتقل کیا جانے لگا اور لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر مردہ خانے بھیجا جانے لگا۔اور جو حاجی بچ سکتے تھے انھیں بھی بلڈوزروں کے ذریعہ اٹھا کر کنٹینروں میں پھینک کر موت کی نیند سلادی یہاں انسانیت کی توہین ہوتا رہا مہمانوں کے ساتھ خوب مہمان نوازی ہوتی رہی۔سب سے بڑا مردہ خانہ معیصم جمال طوری کے نام سے ہے جو مذدلفہ کے قریب ہے ۔خیر شام تک یہ خبر پھیل چکی تھی کی علامہ فخرالدین صاحب لاپتہ ہیں۔کاروان سالاروں کے مطابق12 ذی الحجہ کو جب منیٰ کے اعمال سے فارغ ہوئے تو سب سے پہلے پاکستان ہاوس کا رخ کیا جہاں پرجوائنٹ سیکٹری جمیل صاحب سے ملاقات ہوئی اور ٖفخرالدین صاحب کا نام کسی نے بھی گمشدہ افراد کے لسٹ میں نہیں لکھوایا تھا خیر ان کا نام بھی لکھوایا اور پھر شہیدوں کی تصاویر لیپ ٹاپ پر دیکھایا گیا جن میں قبلہ کی تصویر نہیں تھی دیگر افراد بھی وہاں موجود تھے جن میں ایک خاتون بھی تھیں مگر پاکستانی عملہ سے خوب بحث و مباحثہ کے بعد 16یا17افراد پر مشتمل وفد تیار کیا اور مختلف گاڑیوں میں سوار ہو کر پاکستانی عملہ کے دو فرد کے ساتھ مردہ خانہ کا دورہ کیا وہاں پر دو بڑے حال فل تصاویر شہدا کے انتہائی دردناک تھیں تمام لاشیں جلی ہوئی تھیں جس پر سب حیران تھے شاید دھوپ کی شدت یا فریج کی وجہ سے مگر بہت خستہ حال لاشیں تھیں،بہت سے ناقابلِ شناخت تھے۔کچھ لاشوں کی پہچان ہوئیں اور لوگ روتے ہوئے اپنے عزیزوں کی لاشوں کو وصول کرنے لگے۔یہ ایک پوری وفد کافی تلاش کے بعد وہاں سے سیدھا مستنفی النور کا دورہ کیا جو کہ بہت بڑا ہسپتال ہے وہاں جاکر بھی کافی تلاش کیا۔ایل سی ڈی پر زخمیوں اور شہیدوں کی تصاویر دکھائی گئیں مگر ان میں بھی قبلہ نہیں تھے،اس کے بعدملک عبدالعزیز گئے وہاں بھی نہیں ملے پھر اسی طرح دن گزرنے لگے طائف،جدہ،مکہ سب ہسپتالوں میں دیکھا گیا مگر قبلہ کی کوئی خبر نہیں تھی۔ایک دفعہ پھر مردہ خانہ کا دورہ کیا جس میں حسین ولد نقی کی لاش برآمد ہوگئی اس شہید کے گلے میں نیلا لاکٹ تھا جس پر اس کا نام لکھا گیا تھا وہ تصویر میں نظر آرہا تھااور اس شہید نے قبلہ فخرالدین کا سامان اپنے پاس رکھا ہوا تھا اور قبلہ کے بلکل ساتھ تھا۔حجاج کے مطابق بلتستان کے تمام حجاج وہاں جمع تھے خود ان کے ہمسر کے بھائی بھی وہاں موجود تھے وہ بھی اس بات کو مان گئے تھے کہ اب ان کا ملنا مشکل ہے۔کیونکہ جس طرح لاشوں کو کنٹینرز میں بھر کر سعودیہ کے مختلف شہروں میں بھیجا گیا اور کافی لاشوں کو مجھول الہویہ یعنی ناقابل شناخت یا جن کہ شناخت نہیں ہے کہ کر دفن کر دیا گیا تھا۔حجاج ساتھیوں کے مطابق قبلہ سے لوگوں نے کہا بھی تھا کہ گلے کا کارڈ پہن رکھیں مگر انھوں نے یہ کہ کر ٹال دیا کہ ضرورت نہیں ہے۔اس وفد نے تمام شواہد کو دیکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا کہ یکم محرم تک انتظار کیا جائے شاید خدا کوئی معجزہ دکھا دے۔اگر ایسا نہ ہوا تو اس غمزدہ خاندان کو اور پسماندگان کو یکم محرم کے چاند کے ساتھ ہی صبر کی تلقین کریں اور اس درد کو بیان کر دیں شاید ثانیِ زہراؑ کے غم کو اور اپنے بھائی کے فراغ میں ان کے گریہ اور درد کو محسوس کرتے ہوئے یہ دکھی خاندان اور ملت صبر کرسکے۔۔۔

 

خصوصی رپورٹ۔تحریر۔۔۔محمد سعید اکبری

 

وحدت نیوز (نجف اشرف) عید سعید غدیر کی مناسبت سے بعد از نماز مغربین مؤسسہ شھید عارف حسین الحسینی قدس سرہ(دفتر مجلس وحدت مسلمین پاکستان )نجف اشرف میں ایک محفل جشن ولایت کا اہتمام کیا گیا،جس میں برادر قاری صابر علی موزنی صاحب نے تلاوت قرآن مجید کا شرف حاصل کیا،برادر محمد آ صف نجفی،برادر عاشق حسین مجلسی صاحب،برادر سید صغیر عباس نجفگ صاحب نے ندرانہ عقیدت بحضور امیر کائنات علیہ السلام پیش فرمایا،اس نورا نی محفل میں حوزہ کے طلبہ کی کثیر تعداد نے شرکت کی،اس جشن میں مرکزی خطاب عراق کے بہترین خطیب حجة اسلام والمسلمین سماحة الشیخ عبدالعلی البھادلی دام عزہ نے کیا۔

انھوں اپنے خطاب میں فضائل و مناقب امام علی علیہ السلام کے علاوہ دنیا کی بدلتی ہوئی صورت حال سے طلبہ کو آ گاہ کیا،انھوں نے مغرب کی طرف سے تقافتی یلغار کو ایک مکمل جنگ سے تعبیر کیا،مغرب اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کھیل رہا ہے،جس کے أثرات پورے مشرق وسطی میں ظاہر ہورہے ہیں،آ ج کے پر فتن دور میں مسلمان کی فکری اصطلاح کی ضرورت ہے.تھذیب کی اس جنگ کی وجہ پیدا ہونے والے بگار نے مسلم نوجوانوں کو بے راہ روی کی طرف دھکیل دیا ہے،لیکن اس کے باجود امت مسلمہ نے مغربی ممالک کی ان پالیسیوں کو ناکام کردیا ہے،جس کے بعد ان استعماری ممالک نے دہشت گرد پیدا کرکے اسلام کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا ہے،سانحہ منی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا.کہ یہ سانحہ غفلت اور لا پرواہی کا نتیجہ ہے.اور آل سعود و یہود نے اپنی سفاکی کا مظاہرہ کیااور حجاج کرام کی بے حرمتی کی ہے،دنیا میں صرف حرم مکی ہی جائے پناہ ہے. مگر اسے ہی حجاج کرام کے خون سے رنگین کردیا گیا.

انھوں نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کی خدمات کو سراہا.خصوصا اسلامیہ پاکستان کے اندر شیعہ اور سنی مسلمانوں کے درمیان اتحاد و وحدت کی فضاکو قائم کرنا .
دنیا میں اب سب سے زیادہ مسلمانوں کے درمیان وحدت کی ضرورت ہے،مجلس وحدت مسلمین نے زبانی کلامی دعووں کی بجائے عملی طور اتحاد امت کے لیے بہت اہم کام سر انجام دیا ہے،انھوں نےعلمائے اھل سنت اور علمائے تشیع کے مشترکہ وفد کی عراق آمد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ اس طرح وفودکے تبادلہ سے عراقی اور پاکستانی شیعہ سنی بھائیوں کے درمیان فاصلے کم ہوں گے.اور دونوں برادر اسلامی ممالک میں اتحاد و وحدت کی فضاسے امن کا پیغام دنیا کو ملے گا. انھوں نے مجلس وحدت مسلمین کی کامیابی کے لیے دعافرمائی،مجلس وحدت مسلمین نجف اشرف کے جنرل سیکرٹری برادر علامہ ناصر عباس النجفی نے معزز مہمانو ں اور علامہ صاحب کا شکریہ ادا کیا،پروگرام کے آخری پر طلبہ کرام میں دستر خوان ولایت کا اہتمام کیا گیا.

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree