The Latest
وحدت نیوز(لاہور)عالمی یوم القدس کی مناسبت سے فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان لاہور چیپٹر کے زیر اہتمام القدس کانفرنس بعنوان ''فلسطین کا دفاع پاکستان کا دفاع ہے''کا انعقاد لاہور کے مقامی ہوٹل میں منگل کے روز مقامی ہوٹل میں کیا گیا۔ کانفرنس سے پاکستان تحریک انصاف کے سینیٹر اعجاز چوہدری،جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ، مجلس وحدت المسلمین کے وائس چیئر مین علامہ احمد اقبال رضوی، احمد سلمان بلوچ، علامہ اکبر کاظمی اور فلسطین فاونڈیشن کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے خطاب کیا۔سینیٹر اعجاز چوہدری نے کہا کہ اسرائیل کو فلسطین میں ناجائز تسلط کے طور پر قائم کرنے والی مغربی حکومتیں امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت یورپی ممالک اسرائیلی جرائم میں برابر کے شریک ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایشیائی اور افریقی ممالک میں جدید نوآبادیاتی نظام کو برقرار رکھنے کے لیے فلسطین کے مقام پر اسرائیل کی ناجائز ریاست کو زبردستی قائم گیا۔تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری نے اپنے خطاب میں کہا کہ مسئلہ فلسطین کا منصفانہ حل ناگزیر ہے۔ اسلام امن و سلامتی کا درس دیتا ہے۔ ہم دنیا کو بتا رہے ہیں کہ ہم یہود مخالف نہیں بلکہ اسرائیل کو غاصب اور ناجائز تصور کرتے ہیں۔ مسئلہ فلسطین کا پر امن حل فلسطینیوں کی فلسطین واپسی سے ہی ممکن ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کی اسرائیلی مظالم پر خاموشی سمجھ سے بالاتر ہے، غلامی سے نکلیں اور اسرائیل کے خلاف بھرپور آواز اٹھائیں، قائد اعظم محمد علی جناح کی پالیسی ہی ہماری پالیسی ہے، ہم اس سے انحراف نہیں کرسکتے۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے جماعت اسلامی کے نائب امیر لیاقت بلوچ نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اسرائیل کی فلسطین پر حالیہ جارحیت پر بھرپور مذمت کرنی چاہیے۔ رمضان المبارک میں ہر سال کی طرح امسال بھی اسرائیل کے فلسطین، بیت المقدس کے تقدس کی پامالی پر حملے ان کی شکست اور بوکھلاہٹ کا نتیجہ ہیں ۔جماعت اسلامی کے رہنما نے کہا کہ اسرائیل سے تعلقات اور مراسم قائم کرنے کا مطلب اپنے نظریے کی قربانی ہے، جو کسی صورت قابل قبول نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ۲۳ رمضان کو ملک بھر میں یوم القدس منایا جائے گا عوام بھرپور شرکت کریں۔
کانفرنس سے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر صابر ابو مریم نے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ یہ ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے دینی و ملی فریضے پر عمل کرتے ہوئے فلسطین کی آزادی اور اسرائیل کی ناجائز ریاست کے خلاف آواز بلند کریں۔کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے وائس چیئر مین علامہ احمد اقبال رضوی نے کہا کہ کسی کو اجازت نہیں دیں گے کہ وہ پاکستان میں اسرائیل کے لئے کام کرے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فلسطین فلسطینیوں کا وطن ہے اور اسرائیل ایک غاصب اور ناجائز ریاست ہے۔ ہم کانفرنس میں پیس کردہ قرارداد کی مکمل حمایت کرتے ہیں۔ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے احمد سلمان بلوچ نے کہا کہ ہم فلسطین کاز کے ساتھ ہیں ۔ کانفرنس میں فلسطینی طلبا کی بڑی تعداد میں عبدالرحمان سمیت معروف صحافیوں سمیت سوشل میڈیا کارکنان شہباز گیلانی ، تصور شہزاد، ارسلان عزیز، عابد میر، علی رضا، چمن لال، توقیر کھرل، محمد ثقلین، حنین زیدی، سارہ حبیب، حسن نظامی، مریم علی، خولہ رضوی، عبد اللہ منصور اور دیگر موجود تھے۔
وحدت نیوز(لاہور)ایام شہادت امیرالمومنین امام علی علیہ سلام کے موقع پر سینیئر رہنما مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین سیدہ زہرا نقوی نے کہا امام علی علیہ سلام شہید راہ عدالت ہیں آپ نے معاشرے میں موجود ہر طبقہ کو ایک جیسے حقوق عطا کیے اور عین اسلامی اصولوں پر مرتب معاشرہ قائم کیا آپ کی شہادت سے دین اسلام کو بہت خسارہ اٹھانا پڑا جس دن مظہر عدالت لوگوں کے درمیان سے چلا گیا اور اس دلسوز اور مہربان رہبر کی جگہ دوسروں نے لے لی اس دن دین کا شیرازہ بکھرنے لگا۔
انہوں نے کہا امام علی علیہ السلام کے روحانی مقامات ، آپ کی توحیدی معرفت،آپؑ کی عبادت خدا کی بارگاہ میں تقرب و اخلاص اِن مقامات کی گہرائی تک پہنچنا ہماری پہنچ اور طاقت سے باہر ہے۔تمام شیعہ وسنی مسلمان علماء نے حتیٰ غیر مسلم مفکرین نےامیرالمؤمنین علیہ السلام کی شخصیت کو مکمل طور پر سمجھنے سے اپنی عاجزی اورناتوانی کا اظہار کیا ہے موجودہ سیاسی صورتحال سے متعلق ان کا کہنا تھا کہ مفادات کی سیاست نے ملک کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں سیاست دان انفرادی سوچ کو چھوڑ کر اجتماعی اور اصولوں پر مبنی سیاست کریں تاکہ ملک و قوم کو موجودہ گھمبیر حالات سے نکالا جا سکے ان کا مزید کہنا تھا حضرت علی علیہ السلام نے روئے زمین پر بہترین حکومت کی۔
انہوں نے اعلی مناصب پر اہل لوگوں کو تعینات کر کے میرٹ کو تقویت دی اور ہر ایک کو اسکا حق دیا آپ علیہ سلام نے باغیانہ سازشوں کو بہترین حکمت عملی سے ناکام بنایا آج پاکستان میں حکمرانوں کو حضرت امیرالمومنین علی علیہ سلام کی حکومت اور اصولوں کو رول ماڈل بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)چیئرمین مجلس وحدت مسلمین پاکستان علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے شہادت امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ ماہ رمضان رحمتوں اور برکتوں کا مہینہ ہے، سعادت وبخشش کا مہینہ ہے، جہاں ہم اس ماہ مبارک میں عبادات کی انجام دہی کرتے ہیں، روزہ رکھتے ہیں، قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں، وہاں اس مہینے میں اہم مناسبتیں بھی ہیں ان میں اہم ترین اکیس ماہ رمضان کا دن ہے جو مولا کائنات امیر المومنین حضرت امام علی علیہ السلام کی شہادت سے منسوب ہے، اس دن کو پورے پاکستان کے لوگ یوم عزاء کے طور پر مناتے ہیں، مولا علی علیہ السلام کے سر اقدس پر وار کیا گیا، شقی القلب شخص نے یہ ظلم کیا، یہ درحقیقت سچائی پر حملہ تھا، یہ دراصل عدل پر وار ہوا تھا، یہ غیرت و حمیت اور دیانت پر وار تھا یہ اسلام کی مقدس ترین اور عظیم المرتبت ہستی پر مسجد کے اندر سب سے پہلی دہشت گردی تھی۔ جس نے دین اسلام کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ یہ ہماری عزاء کا دن ہے جس دن ظلم عظیم ہوا تھا، دنیا پرستوں کو امام علی علیہ السلام کا زہد اور عدل برداشت نہیں تھا اس لیے انہیں شہید کردیا گیا، پورے پاکستان کے چھوٹے بڑے شہروں اور قصبوں, دیہاتوں میں شہادت امام علی علیہ السلام کی مناسبت سے جلوس نکالے جاتے ہیں اور مجالس عزاء برپا کی جاتی ہیں، حکومت کی زمہ داری ہے کہ وہ ان جلوسوں کو سیکیورٹی فراہم کرے اور فل پروف سیکورٹی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی جائے، میں تمام عزاداروں اپیل کرتا ہوں اور جوانوں کو بھی کہتا ہوں کہ وہ سامنے آئیں اور سیکیورٹی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں اور ارد گرد کے ماحول پر بھی نظر رکھیں تاکہ دشمن عناصر اپنے مذموم عزائم میں کامیاب نہ ہوسکیں۔
وحدت نیوز(لاہور) شہادت امیرالمومنین، یعسوب الدین ، مولاے کائنات ،شیر خدا وصی رسول خدا صل اللہ علیہ وآلہ وسلم امام علی علیہ سلام کے پرسوز موقع پر تمام عالم اسلام بالخصوص امام زمانہ عج کی خدمت میں تعزیت و تسلیت پیش کرتی ہوں حضرت علی علیہ السلام اس ہستی اور ذات والا صفات کا نام ہے کہ قلم جس کی توصیف سے عاجز اور ناتوان ہیں کیونکہ علی ؑ اس فضیلت کا نام ہے کہ جس کی دنیا کے پیمانوں سے پیمایش نہیں کی جاسکتی، طائر فکر انسانی جس قدر بھی اپنی پرواز بلند کرتا ہے لیکن ذات علی کے سامنے وہ بونا ہی نظر آتا ہے، کیونکہ عقل اور افکار علی کی بے نظیر اور بے مثل ہستی کا احاطہ کرنے سے قاصر ہیں۔ ان خیالات کا اظہار مرکزی صدر مجلس وحدت مسلمین شعبہ خواتین سیدہ معصومہ نقوی نے یوم علی علیہ سلام کی مناسبت سے کیا۔
انہوں نے کہا اس میں کوئی شک اور دو رائے نہیں ہیں کہ پیامبر خاتم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات والا صفات کے بعد بالاتفاق جس ہستی کا مقام اور مرتبہ عظیم الشان ہے وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں امام علی علیہ السلام نے اسلام کی حفاظت اور مشکلات کو دور کرنے کیلئے پچیس سال تک زحمتوں کو برداشت کرنے کے بعد اسلامی حکومت تشکیل دی اور حدود الہی کو قائم کیا ، منحرف لوگوں سے جنگ کی ، ضرورت مندوں اور فقیروں کو ان کا حق دلایا ، مظلوموں کے حق کو پہچنوایا اور بیت المال کو عدالت کے ساتھ تقسیم کرنے کی کوشش کی اگر چہ بعض مسلمان نما لوگوں کو ان کی عدالت پسند نہیں تھی اور اسی وجہ سے ان کو شہید کردیا گیا انہوں نے مزید کہا امیرالمومنین علیہ سلام کی ولایت سے متسمک رہنا اور ان کی محبت سے اپنے دلوں کو منور کرنا ہمارا ایمان ہے لیکن اس محبت اور ولایت کا تقاضا یہ ہے کہ عملی زندگی میں امام علی علیہ سلام کی معرفت حاصل کی جاے اور ان کی سیرت و تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کریں۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ کی سبکدوش ہونے والے برادر اسلامی ملک جمہوری اسلامی ایران کے سفیر محترم سید،محمد علی حسینی کے اعزاز میں دئے جانے والے افطار ڈنر میں شرکت۔ایرانی سفیر سے ملاقات اور پاک ایران دوستی کے لئے ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا۔
انہوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ نئے آنے والے ایرانی سفیر بھی اسی جوش و جذبہ سے دوستی کے اس سفر کو آگے بڑھائیں گے ۔اس موقع پر فلسطین کی آزادی کے مسئلہ پر مختصر اظہار خیال بھی کیا گیا ۔
دیگر شرکاء میں سابق وزیر مزہبی امور نورالحق قادری ،مفتی گلزار احمد نعیمی، علامہ سید ساجد علی نقوی ،علامہ عارف حسین واحدی ،عبدالغفور حیدری، عبداللہ گل،علامہ افتخار حسین نقوی شامل تھے ۔تقریب کا اختتام فلسطین کی آزادی کی دعا کے ساتھ ہوا ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)مقبوضہ کشمیر اور فلسطین کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لئے سچ ٹی وی اور چیرمین امام خمینی ٹرسٹ علامہ سید افتخار حسین نقوی کی جانب سے اسلام آباد ہوٹل میں منعقدہ سیمینار و افطار ڈنر سے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ کی شرکت اور خطاب۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیل کی بنیاد جس ظلم ہر رکھی گئی وہ نابود ہونے کے لیے ہے ۔مظلوم فلسطینی آزادی حاصل کر کے رہیں گے ۔مزاحمت اور مقاومت کا بلاک بہت مضبوط ہو چکا ہے ۔اسرائیل سیاسی اقتصادی، سیکیورٹی اور دفاعی بحران سے دوچار ہے اور مسلسل انحطاط پذیر ہے ۔آج اسرائیل سے تعلقات کا نتیجہ معلوم ہو چکا ہے جبکہ شام سے تمام عرب ممالک تعلقات استوار کرنے جارہا ہیں۔امریکی استعماریت آخری سانسیں لے رہی ہیں اور امید کا روشن چراغ مزید روشن ہوتا جا رہا ہے ۔
انہوں نے پاکستان کے فیصلہ سازوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی قوم اپنی نظریاتی اساس سے جدا رہ کر ترقی نہیں کر سکتی ۔پاکستان بھی اپنی نظریاتی بنیادوں کی مضبوطی سے ہی قوی ہو سکتا ہے ۔نظریہ پاکستان ہر وقت مظلوم فلسطینیوں اور کشمیریوں کے ساتھ کھڑا ہونے کا تقاضا کرتا ہے اور ایسی خارجہ پالیسی ہی پاکستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمانی کر سکتی ہے ۔اس موقع پر سیاسی راہنما ندیم افضل چن، وزیر اعظم کے معاون خصوصی فیصل کریم کنڈی، تسنیم قریشی ،مسلم لیگ لے ایم این اے جاوید شیرازی، مظہر برلاس سمیت دیگر مقررین نے بھی اظہار خیال کیا ۔آخر میں مولانا افتخار نقوی نے اختتامی کلمات کہے ۔اس موقع پر ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی بڑی تعداد شریک تھی ۔
وحدت نیوز(اسلام آباد)امام موسی کاظم علیہ السلام کمپلیکس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی جنرل سیکرٹری سید ناصر عباس شیرازی ایڈووکیٹ کا ملوٹ میں نماز جمعہ کے اجتماع سے مسئلہ فلسطین، اسرائیلی جارحیت اور امت مسلمہ بالخصوص پاکستان کی ذمہ داری کے عنوان سے خطاب۔یوم القدس کے مرکزی اجتماع بروز جمعہ 23 رمضان المبارک میں شرکت کی دعوت آخر میں مدیر محترم اور پراجیکٹ کے روح رواں امام جمعہ علامہ سبطین شیرازی کی دعوت پر کمپلیکس کے مختلف حصوں کا دورہ اور تفصیلات سے آگاہی حاصل کی۔اس موقع پر علاقہ کے معززین ہمراہ تھے ۔۔مجلس وحدت مسلمین ضلع اسلام آباد کے صدر برادر اسد چیمہ نے معززین کو یوم القدس کی ریلی میں شرکت کی دعوت بھی دی۔
وحدت نیوز(کراچی)مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے وفد کی صدر علامہ شیخ محمد صادق جعفری کی سربراہی میں ایڈیشنل آئی جی پولیس کراچی جاوید عالم اوڈھو سے کراچی پولیس آفس میں خصوصی ملاقات۔
وفد میں ڈویژنل سیکریٹری امور عزاداری سید رضی حیدر رضوی اور ممبر ڈویژنل پولیٹیکل کونسل و صدر ضلع ملیر سید احسن عباس رضوی شامل تھے۔
وفد نے ایام علی ع میں عزاداری مجالس و جلوس اور یوم القدس کے اجتماعات اور ریلیوں کی سکیورٹی معاملات کی جانب توجہ مبذول کروائی، اے آئی جی کی جانب سے مسائل کے فوری حل کیلئے متعلقہ حکام کو فوری اقدامات کی ہدایت۔
وحدت نیوز(لاہور) مرکزی کردار سازی کونسل کے زیر اہتمام لاہور میں تربیتی دروس کلاس کو لیکچر دیتے ہوئے حجت الاسلام والمسلمین علامہ راجہ مصطفیٰ کہا کہ :سارے لوگ کامیابی ،خوشی اور لذت کے خواہاں ہیں ،سارے انسان خواہ وہ جہاں ہوں اور جس حال میں ہوں کامیابی ،خوشبختی ،لذت اور خوشی کے خواہاں ہوتے ہیں ۔اس خواہش میں سب لوگ یکساں ہیں خواہ وہ دیندار ہوں یا بے دین نیز اچھے ہوں یا برے ،فرق صرف اس بات میں ہے کہ بعض لوگ اپنی حقیقی کامیابی کی شناخت میں اشتباہ یا غلط فہمی کے شکار ہوتے ہیں یا عمل کے مرحلے میں اس چیز سے غافل ہوجاتے ہیں جسے وہ اپنی حقیقی کامیابی سمجھتے ہیں اور اس کی جگہ غلطی سے کسی اور چیز کو مدّ نظر رکھتے ہیں ۔
خدا پر ایمان نہ رکھنے والے یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی کامیابی دنیا اور دنیوی امور مثلا مال ،جاہ و منصب اور بیوی بچوں وغیرہ سے عبارت ہے ۔اسی لئے وہ انہی چیزوں کے حصول کی خاطر اپنی ساری توانائیاں صرف کرتے ہیں ۔ادھر خدا پر ایمان کے حامل لوگ یہ جانتے ہیں کہ ان کی کامیابی خدا کے ساتھ رابطے اور انبیاء و اولیاء کی پیروی میں نہاں ہے۔وہ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ سب سے بڑی لذت اور سب سے بر تر خوشی بھی خدا کے ساتھ محبت اور ماوراء الطبیعی عالم سے وابستہ ہیں ۔
16
یہ اور بات ہے کہ اگر وہ رضائے الہی کی خاطر کام کریں تو خدا انہیں دنیوی آسائشات اور آرام و سکون سے بھی نوازتا ہے ۔امام سجاد علیہ السلام مناجات المحبین میں خدا کے حضور یوں گڑگڑاتےہیں :
الہی من ذا الذی ذاق حلاوۃ محبتک فرام منک بدلا و من ذا الذی انس بقربک فابتغی عنک حولا ؟
میرے معبود ! کون ہوگا جو تیری محبت کی مٹھاس چکھنے کے بعد تیری جگہ کسی اور کا متلاشی ہو ؟
وہ کون ہوگا جو تیری قربت اور ہمنشینی سے مانوس ہونے کے با وجود تجھے چھوڑ کر کہیں اور جانے کا ارادہ کرے؟
سارے انسانوں کا اصل ہدف اور مقصد (یعنی خوشی ،لذت اور کامیابی کا حصول) مشترکہ ہے البتہ اگر ان میں کوئی اختلاف ہے تو وہ حقیقی کامیابی اور اس کے راستوں کی شناخت کے بارے میں ہے۔
انبیائے الہی انسانوں کو کامیابی ،فلاح اور خوشی کے علاوہ کسی چیز کی دعوت نہیں دیتے ۔انبیاء نے اس بات کی تعلیم نہیں دی کہ لوگ مشکلات اور سختیوں کو دعوت دیں اور اپنے آپ کو خوشیوں سے محروم کریں ۔انبیاء کا پیغام تو یہ ہے کہ لوگ دنیا کی حقیر اور معمولی لذتوں کی بجائے حقیقی ،دائمی اور عظیم لذتوں کو تلاش کریں ،بالکل ان والدین کی طرح جو اپنے عزیز فرزند کو دانتوں کے ذریعے بادام کا سخت چھلکا توڑنے سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں : اس بادام کو کھانے کی خاطر اپنے دانتوں کو نقصان نہ پہنچاؤ تاکہ تمہارے دانت سالم رہیں اور تم طویل عرصے تک ان سے بہترین استفادہ کرتے رہو ۔
۱۷
گاہے انسان کے راستے میں سختیاں اور دشواریاں آجاتی ہیں لیکن ان کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کے نتیجے میں کامیابی اور خوشی اس کے پاؤں چوم لیتی ہیں، بالکل اس شخص کی طرح جو کسی سرجن کے ہاتھوں آپریشن کی تکلیف سہتا ہے تاکہ اس کے نتیجے میں تندرستی اور صحت سے بہرہ مند ہو ۔عقل انسان کو اس بات میں غور و فکر کی دعوت دیتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ کامیابی اور لذت کہاں ہے ۔بالفاظ دیگر انسان ہر کام سے پہلے ماضی،حال اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے نیز ظاہری وباطنی حقائق اور انفرادی و اجتماعی حالات کو مد نظر رکھتے ہوئے تدبر کرے کہ جو کام وہ کرنا چاہتا ہے اس سے حاصل ہونے والی لذت ،کامیابی اور خوشی زیادہ ہیں یا ناکامی ،تلخی اور تکالیف ؟ اسی طرح انسان اس کام کی بجائے جن کاموں کو بجا لانا چاہتا ہے ان کا بھی اس طریقے سے جائزہ لے اور مختلف راہوں (options) میں سے اس راستے کا انتخاب کرے جو سب سے زیادہ خوشی ،لذت اور کامیابی کا موجب ہو ۔اسی لئے فرمایا گیا ہے کہ احکام خداوندی بظاہر تکلیف اور مشقت کا باعث ہیں لیکن حقیقت میں یہ احکام اللہ کے لطف،مہربانی ،رہنمائی اور نعمت سے عبارت ہیں ۔انسان ایک لذیذ غذا کی لذت سے تب بہرہ مند ہوتا ہے جب وہ غذائی مواد کو فراہم کرنے ،پکانے ،چپانے اور کھانے کی زحمت برداشت کرے کیونکہ یقینا ان زحمتوں کو جھیلے بغیر کھانے کی لذت ہر گز حاصل نہیں ہوسکتی ۔
نابردہ رنج گنج میسر نمی شود مزد آن گرفت جان برادر کہ کار کرد
زحمت اٹھائے بغیر خزانہ ہاتھ نہیں آتا۔ مزدوری وہی لیتا ہے جو محنت کرتا ہے ۔
۱۸
واضح ہوا کہ حقیقی کامیابی و خوشی اور اس منزل تک رسائی کی راہ (جو خدا کی معرفت اور محبت سے عبارت ہیں) کی پہچان بہت ضروری ہے۔
حقیقی کامیابی کے حصول کا راستہ
اگر سچ مچ سارے لوگ کامیابی و خوش بختی کے طالب ہیں تو کیا وجہ ہے کہ ہر گروہ کا راستہ دوسرے گروہوں کے راستوں سے مختلف ہے؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ دیندار ہیں جبکہ کچھ لوگ دین سے بیزار ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ بعض لوگ اپنے والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ مہربانی برتتے ہیں جبکہ بعض لوگ ان سے بے رخی کا برتاؤ کرتے ہیں ؟ کیا وجہ ہے کہ کچھ لوگ نمازی ہیں اور کچھ بے نمازی نیز بعض سچے ہیں اور بعض جھوٹے ؟
ان سوالوں کے جواب میں ہم یہ عرض کریں گے کہ اگر ہم غور کریں گے تو ہماری کارکردگی دو بنیادوں پر استوار ہے:
۱۔ افکار اور معلومات۔
۲۔ اخلاقیات اور نفسیات۔
انسانی کار کردگی پر اثر انداز ہونے والا سب سے پہلا عامل اس کی معلومات ہیں ۔فرض کریں کہ دو افراد کو ان کی آ نکھیں بند کر کے صحرا کے درمیان چھوڑ دیا جاتا ہے ۔یہ دو افراد جب اپنی انکھیں کھول کر حرکت کرنا چاہیں گے تو ان کے ذہن میں سب سے پہلے یہ سوال ابھرے گا کہ نجات کا راستہ کس طرف ہے ؟ان میں سے ایک یہ سوچے گا کہ نجات کا راستہ مشرق کی طرف ہے اور دوسرا یہ خیال کرتے ہوئے کہ نجات کا راستہ مغرب کی طرف ہے اس کی جانب چل پڑے گا ۔
ان دونوں کے راستوں کے اختلاف کی بنیاد ان دونوں کی معلومات اور شناخت کا اختلاف ہے ۔
۱۹
جو شخص سگریٹ نوشی کا عادی ہو وہ یہ گمان کرتا ہے کہ اس کی خوشی اور کامیابی کا راستہ سگریٹ نوشی ہے جبکہ سگریٹ نوشی سے بیزار شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی اور اس کے معاشرے کی کامیابی تنباکو نوشی سے اجتناب کرنے میں ہے۔
انسانی اعمال و کردار کی دوسری بنیاد یا دوسرا عامل اس کے باطنی جذبات اور نفسیات ہیں ۔گاہے انسان یہ جانتا ہے کہ کوئی کام برا اور نقصان دہ ہے لیکن اس کے باوجود اسے انجام دیتا ہے ۔بطور مثال اسے معلوم ہوتا ہے کہ سگریٹ نوشی ،بڑوں کی بے احترامی ،کنجوسی ،بزدلی ،حسد ،غصہ اور زود رنجی مذموم صفات ہیں لیکن وہ اپنے اس علم اور اعتقاد کے مطابق عمل نہیں کرتا ۔
اس کے برخلاف بعض لوگ کوشش کرتے ہیں کہ اپنے علم کے مطابق عمل کریں لیکن کبھی تھکاوٹ یا غیظ و غضب سے مغلوب ہوکر جادۂ حق سے خارج ہو جاتے ہیں اور غلطی کر بیٹھتے ہیں ۔اس قسم کے افعال کی وجہ انسان کے باطنی جذبات ،اخلاقیات اور نفسیات ہوتی ہیں جو گاہے انسانی ذہن و فکر کو اس کے علم و اعتقاد کی طرف توجہ سے غافل کردیتی ہیں اور اس غفلت کی حالت میں وہ انسان اشتباہ کا شکار ہوکر کسی اور چیز میں اپنی بھلائی اور کامیابی دیکھتا ہے اور اسی کے مطابق عمل کرتا ہے ۔بطور مثال اگر چہ وہ یہ جانتا ہے کہ اس کی کامیابی عفو و در گذر ،ایثار اور مہربانی کا ثبوت دینے میں ہے، اس کے باوجود غصے کی وجہ سے یہ خیال کرتا ہے کہ اس کی کامیابی انتقام لینے اور حساب چگتاکرنے میں ہے۔یوں وہ اشتباہاً انتقام پر اتر آتا ہے ۔
خلاصہ یہ کہ حقیقی کامیابی تک رسائی اور اپنے اعمال و کردار کی اصلاح کے لئے ہمیں چاہیے کہ اپنے افکار اور باطنی جذبات و نفسیات کی اصلاح کریں۔
وحدت نیوز(لاہور)لاہور مرکزی کردار سازی کونسل کے زیر اہتمام تربیتی دروس کا سلسلہ جاری ہے ۔علمائے کرام نے ولایت فقیہ کے عنوان سے حاضرین کو لیکچر دیئے ۔ حجت الاسلام والمسلمین علامہ محمد علی فضل نے لیکچر دیتے ہوئے کہا کہ ولایت فقیہ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دین اسلام انسان کی تمام فطری ضروریات کا مکمل حل پیش کرتا ہے۔ وہ ولایت جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمہ علیہم السلام کے لیے ثابت ہے وہی ایک فقیہ کے لیے بھی ثابت ہے اس بات میں اس وقت تک کوئی شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا جب تک کوئی دلیل اس کے خلاف نہ ہو۔ ولایت فقیہ کا موضوع کوئی نیا موضوع نہیں ہے بلکہ اس مسئلہ پر بہت پہلے سے ہی بحث ہوتی رہی ہے۔ میرزا شیرازی کا تنباکو کی حرمت پر جو فتویٰ تھا اس کی حیثیت چونکہ حکومتی حکم کی تھی لہذا دوسرے فقہا کے لیے بھی اس کا ماننا واجب تھا۔ ایک قلیل تعداد کو چھوڑ کر ایران کے بڑے علما کی اکثریت نے اس فتوے کو تسلیم کیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ کچھ لوگوں کے اختلاف کو سلجھانے کی خاطر یہ حکم عدالتی فیصلہ کی طرح کا کوئی حکم ہو بلکہ مسلمانوں کے مفاد کو نظر میں رکھتے ہوئے انہوں نے حکم ’’ثانوی‘‘ کے عنوان سے یہ حکومتی حکم صادر فرمایا تھا۔ جب تک عنوان موجود تھا یہ حکم بھی باقی تھا اور جیسے ہی عنوان ہٹایا حکم بھی اٹھا لیا گیا۔مرزا محمد تقی شیرازی جنہوں نے جہاد کا حکم دیا تھا جس کا نام’’دفاع‘‘ رکھا گیا سبھی علماء نے اس حکم پر عمل کیا تھا کیوںکہ وہ حکم حکومتی حکم تھا۔کہا جاتا ہے کہ کاشف الغطا نے بھی اس طرح کے بہت سے مطالب بیان فرمائے ہیں۔ متاخرین علما نراقی نے رسول خدا ﷺ سے مربوط تمام شئونات (اختیارات) کو فقہا کے لیے بھی ثابت جانا ہے۔
مرحوم آقائے نائینی بھی فرماتے ہیں کہ یہ مطلب ’’مقبولہ عمر ابن حنظلہ‘‘ سے استفادہ کیا جا سکتا ہے (جس کی وضاحت بعد میں بیان کی جائے گی)۔اسلامی معاشرے کو اگر کوئی چیز بچا سکتی ہے تو وہ’’ اسلامی حکومت‘‘ ہے۔ امام خمینی(رہ) کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی حکمرانی کی بحث چھیڑی جسے وہ ولایت فقیہ سے تعبیر کرتے تھے۔ ولایت فقیہ کا مبنا و نظریہ انتہائی مستحکم ہے۔ قدیم زمانے سے اب تک اگر کسی نے اس بحث کو نہیں چھیڑا یا اسے کنارے پڑے رہنے دیا تو اس کی وجہ یہ رہی کہ ان کی سوچ یہ تھی کہ جو چیز عملی نہیں ہو سکتی اس کے بارے میں بحث کر نے کا کیا فائدہ۔ اس سے ہٹ کر جب انسان فقہا کی کتابوں میں دیکھتا ہے تو اسے یہ پتا چلتا ہے کہ فقہا میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو غیر اسلامی حاکم کی حکمرانی کو قبول کرتا ہو (فقہ کے مختلف ابواب میں انسان اس بات کو ملاحظہ کر سکتا ہے)۔یہ بات مسلمات میں سے ہے اس کی اگر مثال پیش کیا جائے تو جو تعبیرات صاحب جواہر نے ولایت فقیہ کے بارے میں استعمال کی ہیں وہ بالکل واضح ہیں۔ صاحب جواہر ولایت فقیہ کے دائرہ کار کو صرف ولایت بر صغار (چھوٹوں پر ولایت) تک محدود نہیں سمجھتے بلکہ اس سے بالاتر دوسرے اہم فقہی ابواب جیسے باب جہاد میں فقیہ کی ولایت کی توسیع کے قائل ہیں او اس مسئلہ کو اسلامی فقہ کے واضح مطالب میں سے جانتے ہیں۔ مرحوم نراقی اور آپ ہی کی طرح کے لوگوں نے اس سلسلے میں اچھی خاصی بحث کی ہے۔ اس فکر کی بنیاد بہت ہی مضبوط ہے اور اس کو امام خمینی(رہ) نے پیش کیا ہے۔
امام خمینی(رہ) نے فقہ کے محکم قاعدوں کی مدد سے ۱۳۴۷ہجری شمسی میں نجف اشرف جیسے فقاہت کے مرکز میں ولایت فقیہ کی خاموش اور فراموش شدہ بحث کو دوبارہ زندہ کیا۔ ولایت فقیہ، شیعہ فقہ کے مسلمات میں داخل ہے۔ بعض کم پڑھے لکھے لوگ یہ کہتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ولایت فقیہ امام خمینی(رہ) کی ایجاد ہے ان کے علاوہ کوئی اور اس کا قائل نہیں ہے ان کا یہ کہنا ان کی لا علمی کا نتیجہ ہے۔ جو لوگ فقہا کے کلام سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ ولایت فقیہ کا مسئلہ شیعہ فقہ کے روشن اور واضح مسائل میں سے ایک ہے۔ جو کام امام خمینی(رہ) نے کیا وہ یہ تھا کہ آپ نے اس فکر کو مضبوط اور مستحکم دلائل کے ساتھ اس کی کیفیت کو ان آفاق سے ہم آہنگ کر دیا جو عصر حاضر کی سیاست اور اس کے بارے میں مختلف مکاتب فکر رکھتے تھے اس طرح سے کہ جدید سیاسی مکاتب فکر اور سیاسی مسائل سے آشنا لوگوں کے لیے یہ فکر قابل فہم ہونے کے ساتھ ساتھ قابل قبول ہو جائے۔