وحدت نیوز(آرٹیکل) سوشل میڈیا کی اہمیت اور معاشرے پر اس کے کردار سے ہر کوئی واقف ہے۔ یہ بات بھی نئی نہیں رہی کہ دنیا بھر میں خاص کر نئی نسل اسی سوشل میڈیا کے توسط سے بہت اہم امور بھی انجام دیتے ہیں اور بہت ہی قبیح ترین کام بھی۔ ترقی یافتہ ممالک میں کیا کچھ ہورہا ہے، عام طور پر ان کی خبریں ہمارے ہاں بہت کم پہنچتی ہے۔ اور جو کچھ پہنچتی ہے وہ بھی سوشل میڈیا کے ہی طفیل۔ جبکہ زبان و بیان کی مشکلات اور دلچسپیوں کی تفریق کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا ذرایع کی اپنی پالیسیوں کے تحت دنیا میں سوشل سرکلز بھی ملکوں، معاشروں، مذاہب، اور زبانوں کے حساب سے ہی ایک دوسرے علاقے، زبان، معاشرہ اور ملک کے باسی تک پہنچ پاتا ہے۔ مثلا پاکستانی اردو اور انگریزی میں آئے پوسٹ تو دیکھتے ہی رہتے ہیں، لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے کہ عربی، چائنیز،یا ہندی زبانون میں پبلک فورمز میں کئے پوسٹ بھی بار بار آپ کے سامنے آتا رہے۔ زمانے کا تقاضا ہے کہ ہم ان جدید ذرائع کو بہتر انداز میں اور مثبت کاموں کیلئے استعمال کرنا سیکھیں اور اپنی نسلوں کو سکھائے۔ لیکن دیکھا یہ جاتا ہے کہ ہم مثبت کم جبکہ منفی سرگرمیوں کیلئے زیادہ استعمال کرتے ہیں۔ اور اسی وجہ سے سکول اور کالج کے طلباٗ خاص طور پر متاثر ہوتے نظر آتے ہیں۔ اس زمانے کو ثقافتی یلغار کا زمانہ بھی شاید اسی لئے کہا جاتا ہے کیونکہ دنیا سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے باقاعدہ جنگ سے کترانے لگے ہیں اور سمجھ لیا ہے کہ جنگ کسی مسئلے کا حل نہیں۔ افغانستان، عراق، لیبیا، شام، یمن کی جنگوں سے کسی کی جیت نہیں ہوئی۔ چین جیسا اقتصادی سپر پاور اس حقیقت کو پہلے ہی درک کر چکا تھا۔ اب زمانہ سوشل جنگوں کا ہے اور ہمارے سامنے عرب سپرنگ، ویلویٹ ریوولیوشن، اور دیگر مثالیں موجود ہیں کہ سوشل میڈیا پر اب مختلف معاشرے باقاعدہ جنگیں لڑ رہی ہیں
چائینہ مجبور ہے کہ وہ اپنی معاشیت اور ثقافت کو بیرونی یلغار سے بچانے کیلئے مغربی سماجی ویب سائٹس پر پابندی لگادیں۔ یہی کچھ حال روس کا ہے۔ ایران سمیت دیگر کئی ممالک نے بھی بیرونی ممالک کی سماجی ویب سائٹس کو بند کردیئے، پاکستان میں بھی کافی عرصۃ فیس بک اور یوٹیوب بند رکھا گیا۔ حال ہی میں فیس بک پر الزام لگا کہ کڑوڑوں صارفین کا ڈیٹا امریکی انتخابات کے دوران ناجائز طریقے سے استعمال ہوئے، فیس بک کے بانی نے معذرت بھی کی اور اب امریکا اور برطانیہ میں ان کے خلاف کیسز بھی چل رہے ہیں۔ مسلمان ممالک خصوصا پاکستان کی اپنی کوئی سماجی ویب سائٹ تو ہے ہی نہیں، بیرونی دنیا کے ان اداروں اور سائٹس پر ہماری چلتی نہیں۔ پابندی ہم سے لگنی نہیں کیونکہ استعمال کئے بنا کسی نے رہنا نہیں۔ چاہے بڑے ہوں یا چھوٹے۔ اور استعمال کرنیمیں کوئی قباحت اور مسئلہ بھی بظاہرنہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ کسی بھی چیز کی بہتات اچھی نہیں ہوتی۔ اور سوشل میڈیا کے استعمال میں کوئی باقاعدہ گائیڈ لائن یا طریقہ کار نہ ہوں تو اسکے مضر اثرات سے کوئی نہیں بچ سکتا۔ ہم شاید فی الحال اس چیز کو درک نہیں کرپائے، لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہمارے سامنے امریکا جیسی ترقی یافتہ ممالک بھی مجبور ہیں کہ وہ سوشل میڈیا کے مثبت استعمال کو یقینی بنانے کیلئے باقاعدہ سرکاری فنڈ ز میں سے بجٹ مختص کرے۔ ہر ریاست میں محکمہ تعلیم کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ سکولوں میں بچوں کو تعلیم دینے کے ساتھ ساتھ ان کے والدین کو یہ بھی سکھائے کہ ان کے بچوں کو سوشل میڈیا استعمال کرنے کے آداب کیسے سکھائے جائیں۔کیوں؟ کیوں کہ ان کے تجربات ہوچکے ہیں ماں باپ گھر میں کتنا ہی خیال کیوں نہ رکھے، سکول میں کتنی اچھی تعلیمی نظام کیوں نہ ہو اگر طالبعلم کا حلقہ احباب،خصوصا آج کل کے زمانے میں سوشل نیٹ ورک اچھے نہ ہوں تو وہ کسی اور راہ لگ جانے میں دیر نہیں کرتا۔امریکہ اپنی نئی نسل کو سوشل میڈیا پر کس طرح کے کردار ادا کرنے اور سکھانے پر مجبور ہیں۔؟ انہیں ایسا کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور ایسا کرنے سے کیا کچھ فرق پڑیگا؟ اسطرح کے سوالات تفصیل طلب ہے۔
کچھ سالوں سے امریکی ریاستوں کی حکومتیں باقاعدہ کوشش کررہی ہیں کہ تعلیمی نظام کو بہتر ٹریک پر رکھنے کیلئے سوشل میڈیا کے بہتر استعمال کو یقینی بنائی جائے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک حکومت کے محکمہ تعلیم نے ] طلبا کے سوشل میڈیا کے رہنمائی خطوط کے لیے والدین اور اہل خانہ کی رہنمائی[ کے نام سے باقاعدہ بارہ سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کیلئے الگ اور بارہ سال سے زیادہ عمر کے بچوں کیلئے الگ گائیڈ لائن وضع کئے اور ان کو دنیا کے مختلف زبانوں میں تحریرکرنے کے ساتھ ساتھ والدین کی رہنمائی کیلئے ویڈیوز اور دوسروں کے آرا تک شامل کرکے شایع کردیئے۔نیویارک سٹی گورئمنٹ اور سکولز کی مرکزی ویب سائٹ پر بھی ڈال دیئے۔]جسکا خلاصہ اس تحریر میں شامل ہیں[۔ اور شہر کے ہر سکول اور ہر سکول میں پڑھنے والے بچوں کے والدین کو بھی ظاہر ہے پہنچا دی گئی ہیں تاکہ۔۔۔؟ سوال یہ ہے کیا یہ بات نیو یارک حکومت تک محدود ہے؟ کیا دوسری قومیں ہماری طرح ہیں؟ نہ سکولوں میں تعلیم کا بہتر نظام، نہ نئے تقاضوں کے مطابق تعلیم و تربیت؟ یقینا نہیں، چائینہ، یورپ، رشیا، اور دنیا بھر میں سوشل میڈیا اتھکس کو اب ضروری سمجھا جاتا ہے۔ بچوں اور بچوں کیوالدین کی تربیت کی جاتی ہے۔ انکو سوشل میڈیا کے آداب باقاعدہ پڑھائے اور سکھائے جاتے ہیں۔ دوسری طرف ہم ہیں پاکستانی، خصوصا گلگت بلتستانی۔ مسلمان ہیں۔ سماجی و دینی اقدار ہیں۔ بہت ساری ذمہداریاں ہیں سب پر۔ سرکاری پالیسیوں کو تورکھیں اپنی جگہ وہ تو دو انچ تارکول سڑک پر چڑھا کے احسان عوام پر ڈالتے ہیں۔ لیکن والدین؟ اکثریت خود ٹیکنالوجی سے واقف نہ تعلیم اتنی کہ دنیائی حوادث سے آشنائی ہو۔ اور ان حوادث کیلئے اپنے بچوں کی کوئی رہنمائی کرسکیں۔ نتیجتا، بچے اپنی راہ خود چنتے نکلتے جاتے ہیں، اچھے کو برا سمجھے، یا کچھ برے لوگ برائی کو ہی اچھا بنا کر انکو سمجھائے، بچارے والدین کو تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ جب سالہا سال شہروں میں رہنے کے بعد اور بعض تو اپنے ہی گھر میں ہی رہتے ہوئے کسی اور سوچ کا مالک بن چکنے اور والدین، اخلاق، اطوار، روایات، سب کے سامنے سینہ سپر ہوکر کھڑے ہونے تک بے خبر رہتے ہیں۔ باتیں لمبی ہوجارہی ہے۔ مختصرا۔سوشل میڈیا کے بارے میں اپنے بچوں کی رہنمائی پر توجہ دیں۔۔ اگر والدین اور گھر کے بڑے نہیں دینگے تو کل کو پچھتائیں گے۔اس کیلئے کم از کم شیطان بزرگ امریکہ کی طرفسے اپنے شہریوں کیلئے پیش شدہ رہنمائی (اردوزبان میں تحریر لنک مضمون کے آخر میں ) کا ہی ایک بار مطالعہ کر لیں۔۔۔
خلاصتا چند اہم نکات درج ذیل ہیں:
۱۔ شہ سرخی مشق: اگر آپ کا بچہ ایک اخبار کے مضمون کا عنوان ہوتا تو یہ اس مضمون کے ساتھ کیسی شہ سرخی دیکھنا چاہیگی؟ شہ سرخی کو تحریر کریں۔ دوستوں، اہل خانہ اور مشہور افراد کی شہ سرخیاں کیسی ہو سکتی ہیں۔ آپ کی اور آپ کے بچے کی موجودہ آن لائن جگہوں پر موجود تصاویر اور پوسٹس کی نوعیت کا جائزہ لیں۔ کیا یہ آپ دونوں کے پسندیدہ عنوان سے میل کھاتی ہیں؟ اگر نہیں، تو کیا مستقبل کی پوسٹس ایسی ہونی چاہئیں؟ ۲۔ بچے کو پتہ ہونا ضروری ہے کہ آپ کے بچے کے پوسٹ سے انکے اساتذہ، دوست، رشتے دار کیا تاثر لیتے ہیں؟یعنی اسکی شخصیت اور سوچ کیسی ہے۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں۔اپنے بچے کو بتائیں کہ اپنا پتہ، تاریخ پیدائش، یا دیگر ذاتی معلومات کو پوسٹ کرنا کیوں غیر محفوظ ہے اور شناخت کی چوری (آئی ڈینٹٹی تھیفٹ) کا کیا مطلب ہے۔ ۳۔ تعارف، پس منظر کس طرح سے لکھ کر پیش کرتے اور کیسی تصاویر شیر کرتا ہے؟ عام لوگوں کو ان سے کیا تاثر مل رہا ہے؟ ۴۔ بچے کو جاننا لازمی ہے کہ وہ ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کریں - اپنے سامعین کو ذہن میں رکھیں، اس کیلئے والدین کا اپنے بچے کیساتھ ایک مشترکہ اکاونٹ بنانا، پرائیوسی کا خیال، دوستیاں وغیرہ مل کرنا، بات چیت جاننے والوں سے ہی کرنا،۔۔ جو چیز پوسٹ کی جارہی ہیں اسکی ضرورت، اہمیت، افادیت سے واقف کاری بہت اہم ہے۔ ۵۔ اپنے آن لائن سرگرمیوں کے نتائج کے بارے میں سوچیں اور یہ جانیں کہ یہ کس کو بطور دوست، یا فالو کرنے والا وغیرہ شامل کررہے ہیں۔ ذاتی حساس معلومات کو پوسٹ نہ کریں، معلومات کو راز رکھیں، سکول سے ملنے والی بچوں کی آن لائن سرگرمیوں پر مبنی رپورٹ پر غور کریں، بچے کے اکاونٹ کو خود فالو کریں، دوست بنائے رکھیں اور انکی رہنمائی کرتے رہیں۔ ۶۔ سائبر غندہ گردی کی دھمکیوں کو سنیجیدہ لیں۔ پنے بچے کے اسکول کے دوستوں اور ان کے ساتھ ملکر کرنے والی سرگرمیوں پر نظر رکھیں، گھر پر طرز عمل سے آگاہ رہیں، اگر آپ کو شک ہے کہ آپ کے بچہ کیساتھ کوئی غندہ گردی کر رہا ہے تو صورت حال کو سمجھنا اہم ہے۔ ۷۔ اپنے بچے کی آن لائن برادریوں میں مثبت رہنے کی حوصلہ افزائی کریں۔ایسے دیگر افراد کی نشان دہی کریں جو مثبت انداز میں شرکت کرتے ہیں۔ ۸۔ اس بات پر دھیان دیں آپ کے بچے کا رویہ ایک دم کیوں تبدیل ہو جاتا ہے۔ روزہ مرہ کی سرگرمیوں سے خارج ہونا، آن الئن اور ٹیکسٹ کرتے وقت غصہ کرنا، جب کسی بالغ کی آمد ہو تو جلدی سے اپلیکشنز کو بند کرنا، یا اس بارے میں بات چیت کرنے سے اجتناب کرنا کہ یہ کمپیوٹر پر کیا کر رہے ہیں۔ ۹۔ حالات حاضرہ کو استعمال کریں۔ خبروں میں واقعات اور دوستوں اور اہل خانہ کی صورت حال ذمہ داری کے ساتھ پوسٹ کرنے کے بارے میں بات چیت کرنے کے عمدہ مواقع فراہم کرتی ہیں۔ ''ہمیں یہ جاننے کی ضرورت کیوں ہے؟'' جیسے سوال کا تیار جواب فراہم کرتا ہے۔
تحریر: شریف ولی کھرمنگی( بیجنگ)
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کےسیکریٹری جنرل کربلائی رجب علی نے کہاہے کہ ہمیں ملک میں عدل و انصاف کی عدم موجودگی کا سامنا ہے اور اسکی عدم موجودگی نے ملک کے اندر کرپشن، قانون شکنی، جرائم میں اضافے اور ایسے دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں۔جمہوریت انصاف کی بحالی کیلئے ہوتی ہے، اس نظام میں انصاف کو ترجیح دی جاتی ہے، پاکستان کے عوام حقیقی جمہوریت کے خواہش مند ہیں، ہم ہمیشہ جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ حقیقی جمہوریت ایسی حکومت ہوتی ہے جس میں پارلیمانی نمائندے اپنے علاقے کے عوام کی ترجمانی کا حق ادا کرتے ہیں، عوامی نمائندے اپنے اختیارات کے استعمال سے عوام کو درپیش مسائل کو حل کرتے ہیں اور قوم کی خدمت حقیقی نمائندوں کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
بیان میں مزید کہا گہا ہے کہ ہمارے نمائندے نے اپنے علاقے میں بِلا رنگ و نسل و مذہب عوام کی بھرپور خدمت کی ہے، جس کی گواہ علاقے کے عوام ہیں۔ ایک جمہوری ملک میں عدلیہ قانون ، آئین اور انسانی حقوق کی محافظ ہوتی ہے۔ قیام امن اور کرپشن کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے جانے چاہئے اور عدلیہ کو چاہئے کہ وہ بغیر کسی سیاسی دباؤ اور خوف کے فیصلہ کرے اور جمہوریت کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کرے۔ بیان کے آخر میں کہا گیا کہ موجودہ جمہوری نظام میں عدلیہ کا کردار سب سے زیادہ اہم ہو گیا ہے، بہتر نظام کیلئے عدل و انصاف کو یقینی بنایا جائے وگرنہ ہمارا نام صرف نام کا جمہوری نام رہ جائے گا اور اس کے اندر جمہوریت کی کوئی خوبی نظر نہیں آئے گی۔
وحدت نیوز (کوئٹہ ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رہنماعلامہ ولایت جعفری نے ایک بیان میں گزشتہ دنوں پیش آنے والے دہشتگردی کے واقعہ کاتذکرہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ حکومت وقت سے صوبے بھر کے عوام کی امیدیں وابسطہ ہے نظام امن کو برقرار رکھنے کیلئے جدو جہد کی ضرورت ہے۔ امن کی بحالی ہماری ضرورت ہے شہریوں کا تحفظ حکومت کی ذمہ داری ہے اسے یقینی بنایا جائے ۔
انہوں نے مزیدکہاکہ حالات کی خرابی پورے شہر میں کاروبار سمیت نظام زندگی پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ امن و امان کی بحالی کے بغیر صوبے میں ترقی کا پہیہ نہیں چل سکتا ۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ملک میں بہت سے اداروں کا قیام امن و امان کو قائم رکھنے کیلئے کیا گیا ہے ، تاکہ یہ اداریں عوام کے جان اور مال کی تحفظ کریں۔ جگہ جگہ ناکھوں کا قیام شہریوں کو تنگ کرنے کیلئے نہیں بلکہ امن و امان کی بحالی کیلئے کیا گیا ہے۔عوام کے تحفظ پر فائز اداروں کے تمام اہلکاروں کو چاہئے کہ اپنے فرائض بخوبی سرانجام دے۔ تا کہ عوام سکھ کا سانس لے سکیں۔ گزشتہ دنوں سے دس سے زائد افراد کی ٹارگٹ کلنگ جن میں نواں کلی کے قریب اُزبک نوجوانوں ، اسپنی روڈ پر پولیس اہلکار ، قندھاری بازارمیں ہزارہ نوجوان سمیت و دیگر زخمیوں اور مسیحی برادری کے چار نوجوانوں کی ٹارگٹ کلنگ سمیت تمام واقعات قابل افسوس اور ناقابل برداشت ہیں۔
وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن نے کے الیکٹرک کی جانب سے جاری بدترین لوڈ شیڈنگ اور زائد بلنگ کے خلاف شہر بھر میں احتجاجی بینرز آویزاں کردیئے گئےہیں،شہریوں کو لوڈشیڈنگ کے عذاب سے فوری نجات ناملی تو کے الیکٹرک کے دفاتر کا گھیرائوکریں گے، ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کے رہنماعلامہ مبشرحسن نے وحدت ہائوس کراچی میں ڈویژنل شوریٰ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
انہوں نے کہا کہ شہر قائد کے عوام شدید گرمی میں کے الیکٹرک کے بد ترین ظلم کا شکار بنے ہوئے ہیں ، فرنس آئل کی قیمت وصول کرکے گیس سے پیدا شدہ بجلی شہریوں کو فراہم کرنے والی کے الیکٹرک بہانے بازیوں سے کام لے رہی ہے،غیر اعلانیہ اور ظالمانہ لوڈشیڈنگ نے شہریوںکو مجموعی طور پر اور سالانہ امتحانات میں مصروف عمل نویں اور دسویں کے طلباءشدید طور پر متاثرکیا ہے۔ علامہ مبشرحسن نے کہا کہ لوڈشیڈنگ کے باعث بزرگوں اور معصوم بچوں کو بھی شدید مشکلات درپیش ہیں ،ابھی موسم گرما کے آغازپر لوڈشیڈنگ کا یہ حال ہے تو آگے جاکر کیا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین شہرقائد کے عوام کو درپیش مشکلات کے پیش نظر کے الیکٹرک کی نا اہل انتظامیہ کے خلاف منظم احتجاجی تحریک کا باقائدہ آغاز کردیاہے، پہلے مرحلے میں شہر کی مختلف علاقوں کی اہم شاہراہوں اور گذرگاہوں سمیت کے الیکٹرک کے دفاتر کے باہر احتجاجی بینرزآویزاں کردیئے گئے ہیں،کے الیکٹرک انتظامیہ کی اہلیان کراچی کے ساتھ جاری نا انصافیوں اور غیر انسانی رویئے کے خلاف آج 5اپریل 2018بروز جمعرات5 بجے شام وحدت ہائوس سولجر بازار میں ایک اہم پریس کانفرنس بھی منعقد کی جارہی ہے جس میں احتجاجی تحریک کے اگلے مراحل کا اعلان کیا جائے گا۔
وحدت نیوز(کراچی) شہرقائد کے باسیوں پر شدید گرمی میں کے الیکٹرک انتظامیہ کی جانب سے جاری ظالمانہ لوڈشیڈنگ ، اووربلنگ اور زائد ٹیرف کے خلاف مجلس وحدت مسلمین کراچی ڈویژن کی جانب سے احتجاجی تحریک کا آغاز کردیا گیا، پہلے مرحلے میں شہر قائد کے مختلف علاقوں کی اہم شاہراہوں ، چوکوں اور چوراہوں سمیت کے الیکٹرک کے دفاتر پر احتجاجی بینرز آویزاںکردیئے گئے ہیں، ایم ڈبلیوایم نے کے الیکٹرک انتظامیہ سے شہریوں کیلئےفوری ریلیف کا مطالبہ کیا، ترجمان ایم ڈبلیوایم کا کہناتھاکہ کے الیکٹرک کے خلاف عوام دشمن پالیسیوں کے نتیجے میں احتجاجی تحریک کے اگلے مراحل کے اعلان کیلئے آج ہنگامی پریس کانفرنس آج صوبائی سیکریٹریٹ میں منعقدکی جائے گی۔
وحدت نیوز(کراچی) صوبائی سیکرٹریٹ مجلس وحدت مسلمین سندھ و دعا کمیٹی کے تحت ھفتہ وار دعائے توسل اور جشن مولود کعبہ یوم ولادت باسعادت حضرت امام علی علیہ السلام محفل شاہ خراسان روڈ پر منعقد ھواجسمیں علماء ، ذاکرین ، مذہبی ، سماجی ، قومی ، ماتمی انجمنوں ، اسکاؤٹس، وکلا ، مساجد و امام بارگاہوں کے ٹرسٹی، سیاسی شخصیات ، مشہور و معروف نعت ، منقبت خواں، سنی و شیعہ رہنماؤں اور مومنین و مومنات نے بھرپور شرکت کی دعائے توسل کی تلاوت آغا شہریار علی نے کی بعد از ختم دعا جشن مولود کعبہ سے شیعہ سنی نعت و منقبت خواں حضرات ، سید ناصر آغا ، ماسٹر غلام عباس ، سجاد حیدر ، شہریار ، حکیم فیضِ سلطان، عبدالواحد قادری ، شاید رضا قادری ، نقی لاھوتی ، قاسم بھوجانی، محمد مہدی ، علی مصطفیٰ ، علی رضا حیدری ، نیاز حسین ، نے بارگاہ امامت میں گلدستہ عقیدت پیش کیا۔
مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی ڈپٹی سکریٹری جنرل علامہ احمد اقبال رضوی ، مولانا اختر عباس نقوی ، علامہ سجاد شبیر رضوی ، ممبر صوبائی اسمبلی میجر ریٹائرڈ قمر عباس رضوی ، ذاکر اہلبیت نقی نقوی ، حسن صغیر عابدی ، ناصر الحسینی نے خطاب کرتے ھوئے کہا کہ ایسی محافل جس میں تمام مکاتب فکر کے علماء کرام ، نعت و منقبت خواں شامل ھوں تو ملک سے تکفیری فکر اور دشت گردی کے خاتمے کا باعث ھونگی ،علامہ احمد اقبال رضوی نے فلسطین ، مقبوضہ کشمیر ، یمن ، بحرین ، سعودی عرب میں نہتے مسلمانوں کی شہادتوں پر شدید مزمت کی اور انہیں بدترین ریاستی دشتِ گردی قرار دیاامریکہ ،اسرائیل ،بھارت ،سعودی عرب کا شیطانی اتحاد مسلمانوں کا قتل عام کررہا ھے،اقوام متحدہ اور نام نہاد انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں مسلمانوں پر مظالم و ریاستی جبر وتشد مجرمانہ طور خاموش تماشائی بنے ھوئے ہیں،یمن ، بحرین ، سعودی عرب ، نائجیریا ، برما میں خواتین ،بچوں ، بزرگوں ، علماء کرام پر ظلم کے پہاڑ توڑ جا رھے ہیں لیکن اس کے باوجود انکے اندر جذبہ جہاد اور شوق شہادت ختم نہیں کیا جاسکا ھے،آج علیؑ والے ہی ہیں کہ پوری دنیا میں دشمنان اسلام امریکہ ،اسرائیل سے ڈٹ کر مقابلہ کررھے ہیں آج انھیں علی والوں نے شام ، عراق سے داعش اور تکفیری دشتِ گردوں کا صفایا کیا۔
انہوں مزید کہا کہ تکفیری دشت گردوں نے سر زمین پاکستان میں بھی اسکولوں ، پاک افواج ، مساجد و امام بارگاہوں میں بم دھماکے ، فائرنگ اور بسوں سے اتار کر شناخت کر کے بے دردی کے ساتھ مسلمانوں کو شہید کیا گیا اور بسوں کو آگ لگایا تھا ہم اہلبیت و مولا علی کے ماننے والوں نے ہی تکفیریوں کا مقابلہ کیا،اس موقع پر ایم ڈبلیو ایم ضلع جنوبی کے ڈپٹی سکریٹری جنرل عقیل احمد ایڈووکیٹ ، رابطہ سکریٹری نزیر علی ، علی عباس ، محمود آباد یونٹ کے ارکین ، بوتراب اسکاوٹ کے محمد مہدی ، ضامن عباس نقوی ، الخدام اسکاؤٹ عباس علی ، خادمان علم کمیٹی ، ندیم رضوی ، حیدر کرار ٹرسٹ رضی حیدر رضوی ، پاسبان عزا جنرل سکریٹری آغا علی حیدر ، دانش عابدی ، احسن رضوی ، مزمل حسین کاظمی ، عون محمد خواجہ ، مولانا علی رحمت حجتی ،علی رضا نامدار بھی موجود تھے۔آخر میں سانحہ 3 اپریل 2012چلاس گلگت بلتستان کے شہداء کیلئے فاتحہ خوانی کی گئی اور مومنین و مومنات میں نیاز مولا کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔