وحدت نیوز (آرٹیکل) گلوبل ویلج کانام تو آپ نے سنا ہی ہوگا،یہ کوئی افسانوی بات نہیں بلکہ میدانی حقیقت ہے۔آج جدید ٹیکنالوجی نے ،سچ مچ میں ہماری اس دنیا کو گلوبل ویلیج میں بدل دیا ہے۔ ماضی کی  مشکلات اب جدید ٹیکنالوجی کی بدولت کافی حد تک حل ہوگئی ہیں۔ وسائل نقل و حمل کا مسئلہ ہو یا مواصلات کا، پہلے دنیا ومافیہا سے لوگ بے خبر ہوتے تھے لیکن آج ان سہولیات کی بدولت پل پل کی خبروں سے انسان آگاہ رہ سکتے ہیں۔ پہلے سالوں کی مسافت اب ہفتوں میں اور مہینوں کی مسافت اب دنوں اور گھنٹوں میں بدل گئی ہے۔ پہلے جس کام کے انجام دینے کے لیے دسیوں افراد درکار ہوتے تھے اب ایک جدید مشین ان سب سے بہتر انداز میں اس کام کو انجام دیتی ہے۔ٹیلی فون اور موبائیل کے فقدان کے باعث لوگ اپنے عزیزوں سے سالوں بے خبر ہوتے تھے  اب جدید ٹیکنالوجی نے مختلف طریقوں سے ایسے بہت سارے مسائل کو حل کیا ہےاور فاصلوں کو بہت حد تک کم کردیا ہے۔وہاں  بدقسمتی سے وسائل میں اضافے کے ساتھ ساتھ مختلف اخلاقی، اعتقادی، معاشرتی، خاندانی، فکری اورتربیتی حوالے سےبہت ہی خطرناک مسائل بھی جنم لے رہے ہیں۔ پہلے جن مسائل کے بارے میں سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا آج کل وہ عملی صورت پر رونما ہورہے ہیں۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کے بھائی  کی طرح زندگی گزارتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد میں بھرپور شریک ہوتے تھے، غریبوں کی خوب مدد کرتے تھے اور بے سہاروں کا سہارا بنتے تھے، مریضوں کی  تیمار داری کرتے تھے، ایک دوسرے کا غم بانٹتے تھے، بزرگوں کا احترام اور علماء کے دربار میں رہنے کو اپنا شرعی اور اخلاقی فریضہ سمجھتے تھے، اپنے ہر  اہم کام میں اپنے علاقے کے عالم دین سے مشورہ کرتے تھے اور اس کے حکم کی تعمیل کرتے تھے، مشکلات کی بھرمار ہونے کے باوجود خوشحال رہتے تھے، عیش و نوش کی محفلوں کا سوچنابھی دور کی بات تھی،  طور اطوار اب سے بہت ہی مختلف تھے،ناموس کا احترام بہت زیادہ کیا جاتا تھا اور طلاقوں کی شرح نہ ہونے کے برابر تھی۔ بے حیائی اور بے حجابی آٹے میں  نمک کے برابر تھی۔

موجودہ زمانے میں جدید ٹیکنالوجی  جوں جوں ترقی کر رہی ہے  انسان کی  انسانیت و  اخلاقیات، محبت و الفت، شرافت و دیانت، عبادت و ریاضت، عدالت و صداقت، رحمت و ہمدلی، آداب و احترام، اطعام و اکرام ، غریب پروری و تیمارداری میں رفتہ رفتہ واضح کمی بھی رونما ہورہی ہے اور اب انسان انسانیت سے نکل کر مشین کا روپ دھار رہا ہے۔ ایسی ایجادات کی نمود سے پہلےیہ تمام اخلاقی اقدار کافی حد تک برقرار تھے۔

انسانیت کی جگہ اب مادیت لےرہی ہے، محبت کی جگہ اب نفرت اپنا گھر بسا رہی ہے، شرافت و دیانت کے مقام پر بدمعاشی اور خیانت قابض ہوتی جارہی ہے، عبادت و ریاضت کی جگہ اب ساز و سرود غصب کررہا ہے، عدالت و صداقت پر اب ظلم وفریب  شب خوں مار رہا ہے، رحمت و ہمدلی کی جگہ اب شقاوت و نفرت حاکم ہوتی جارہی ہے۔علماء کی ہمنشینی اب عذاب محسوس کرنے لگ گئے ہیں اور ان پر مختلف قسم کا الزام لگاکر انھیں سرکوب کرنے کی کوشش کرنا ایک عام سی بات بن گیا ہے۔ ان سے معاشرے کےایک حاذق روحانی ڈاکٹر کے طور پر اپنی روحانی بیماریوں کا علاج کرانے کی بجائے اپنے ذاتی مقاصد کے لیے انھیں استعمال کرنے کی ناکام کوشش کرنا اب روز مرہ کا معمول بن چکا ہے۔ پہلے خواتین اپنے ماں باپ کی اجازت کے بغیر گھرسے نکلنا اپنے لیے ننگ و عار سمجھتی تھیں اور محدود وسائل کے باعث ان کا ہر کام  والدین، بھائی اور دوسرے عزیزوں کی  زیر نظر ہوتا تھا جس کے سبب بے حیائی عجوبہ سی لگتی تھی اور ہماری خواتین حیا  کا  پیکر شمار ہوتی تھیں۔ لیکن اب جدید کمیونیکیشن کی بدولت موبائیل، فیس بک اور وٹس اپ جیسی سہولیات کا سہارا لیکر  رفتہ رفتہ عشق و عاشقی کے نام پر غلط روابط کے ذریعے بے حیائی کا بازار گرم ہوتا جارہا ہے۔طلاقوں کی شرح میں روز بہ روز ترقی ہوتی جارہی ہے۔ گھروں  کی چاردیواری کی حرمت بھی اب بری طرح پامال ہوتی جارہی ہے اور آزادی کے نام پر  فحاشی  اور عریانیت کو  دن بہ  فروغ ملنے کے ساتھ ساتھ  خانوادگی زندگی بھی اجیرن بنتی جارہی ہے۔ انھیں سہولیات کا سہارا لیکر مغرب کی بوسیدہ  ثقافت ہماری پاکیزہ  ثقافت کو بری طرح متاثر کر رہی ہے۔ تمدن کے نام پر اسلامی تہذیب کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں۔

نشے اور اخلاقی برائیوں میں رفتہ رفتہ اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ سال ۶۷لاکھ  بالغ افراد نے منشیات استعمال کیا۔ ۴۲ لاکھ سے زائد افراد نشے کے عادی ہیں۔ ان میں سے تیس ہزار سے بھی کم افراد کے لیے علاج معالجے کی سہولیت میسر ہے۔ کل آبادی کا ۴فیصد بھنگ پی رہا ہے۔ آٹھ لاکھ سات ہزار افراد افیون استعمال کر رہے ہیں۔ مردوں میں بھنگ اور خواب آور ادویات کی شرح زیادہ ہے جبکہ خواتین سکون فراہم کرنے والی ادویات بھی استعمال کرتی ہیں۔ تقریبا سولہ لاکھ افراد ادویات کو بطور نشہ استعمال کرتے ہیں۔ منشیات کی وجہ سے سالانہ لاکھوں افراد داعی اجل کو لبیک کہہ رہے ہیں۔ ﴿۱﴾ یہی وجہ ہے کہ آج کے جدید نظام زندگی سے تنگ آکر لوگ اب اپنی سابقہ طریق زندگی کے لیے ترس رہے ہیں۔جس کا واضح ثبوت  حال ہی میں اٹلی میں  دس لاکھ سے بھی زیادہ افراد کا اپنے قدیم گھریلو سسٹم کی بحالی کے لیے احتجاج کرنا ہے۔﴿۲﴾

آخر اس کا سبب کیا ہے؟  اس کی بنیادی وجہ  ہمارے اعتقادات کی کمزوری،اسلامی اقدار سے  ہماری دوری اور نئی نسل کی صحیح اسلامی تربیت سے ہمارا چی چرانا ہے۔ہمیں چاہیے کہ اپنے بچوں کی ایسی تربیت کریں  جس کے بعد وہ ان تمام مشکلات کا مردانہ وار مقابلہ کرسکیں۔ جب ہم ان کی درست تربیت کے ذریعے ان کے اعتقادات کو مضبوط بنائیں گے تب اسلامی اقدار کی نسبت ان کے ذہنوں میں ایک احترام تشکیل پائے گا۔ جب یہ اقدار  ان کے ذہنوں پر حاکم رہے  گا تب خود بہ خود اسلامی قوانین پر عمل کرنے کے لیے وہ تیار ہوجائیں گے۔ جب وہ اسلامی اصولوں پر عملی میدان میں بھی پابند ہوجائیں گے تب ثقافتی یلغار انھیں  منحرف نہیں کر سکے گا۔

کائنات میں اللہ تعالی نے کوئی چیز بری خلق نہیں کی ہے۔ ہر چیز انسان کے کمال اور اس کی ترقی کے لیے ہے۔  اسی طرح جدید ٹیکنالوجی میں بھی صرف منفی پہلو نہیں بلکہ اس کے فوائد بھی  ناقابل انکار ہیں۔ کیا ہم صرف اس کی منفی جہت کو دیکھ کر اس کے قریب ہی نہ جائیں؟ نہیں نہیں۔ اس قدر احتیاط کی ضرورت نہیں ہے۔﴿البتہ کم عمر ی میں بچوں کا  کمپیوٹر استعمال کرنا  ان کی ذہنی صلاحتیوں میں کمی کا سبب بنتا ہے۔ اسی لیے خود بلگیٹ نے اپنے بچوں کو کبھی کمپیوٹر استعمال کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اسی طرح اوباما کی بیوی نے بھی پندرہ سال ہونے تک اپنے بچے کو کمپیوٹر کے قریب تک جانے  نہیں دیا۔ یہ ہم ہیں جو دوسروں کی نقل اتارتے اتارے اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دیتے ہیں۔﴾ ہماری کمزوری یہ ہوتی ہے کہ اس جدید ٹیکنالوجی کو مثبت انداز میں فائدہ مند بنانے کی بجائے اسے منفی کاموں کے لیے ہی استعمال کرتے ہیں۔بالفرض اگر کوئی فیس بک پر کسی نامحرم کی تصویر لگا دے تب مرور زمان کے ساتھ ساتھ  جتنے لوگ اسے دیکھ کر گمراہ ہوتے جائیں گے اس گناہ میں وہ تصویر لگانے والا برابر کا شریک رہے گا خواہ وہ خود زندہ ہو یا  مر چکا ہو۔ اس گناہ کا حصہ اسے قبر میں بھی ملتا رہے گا۔ اسی طرح کوئی اچھی بات وہاں شیئر کرتا ہے تب جتنے لوگ اس سے استفادہ کریں گے اس کے ثواب میں بھی وہ شخص برابر کا  شریک رہے گا خواہ وہ قید حیات میں  ہو یا ابدی سفر پر روانہ ہوچکا ہو۔  جس طرح چھری خود سے کوئی بری چیز نہیں، رائفل کوئی خطرناک چیز نہیں، کلہاڑا کوئی دردناک چیزنہیں۔ لیکن جب ہم ان چیزوں کو اپنے مصرف میں استعمال کرنے کی بجائے ان سے  غلط کام لینا شروع کردیتے ہیں تب ان میں منفی رخ پیدا ہوجاتا تھا۔ جس چھری کو سبزی اور گوشت کاٹنے کے لیے استعمال ہونا چاہیے تھا، جس ہتھیار کو اپنے ملک دشمن  کافر و مشرکین کو سرکوب کرنے کے لیے بروکار لانا چاہیے تھا جس کلہاڑے سے لکڑی اور دوسری سخت چیزیں کاٹنا چاہیے تھا اب اگر ان سے کسی مسلمان  کا گلہ کاٹے ، کسی بے گناہ  کی جان سے کھیلے اورکسی عزیز  کا خون بہائے تو اس میں ان چیزوں کی کوئی غلطی نہیں بلکہ اس استعمال کرنے والے کا قصور ہے۔ بنابریں جدید ٹیکنالوجی خود سے کوئی خطرناک چیز نہیں لیکن جب ہم اسے اپنے منفی مقاصد کو پانے کے لیے استعمال کرتے ہیں تب اس کے مفید اثرات ناپید ہوجاتے ہیں اور اس کی جگہ مضر اثرات معاشرے میں پھیل جاتے ہیں۔ لہذا ہماری بنیادی ذمہ داری یہ ہے کہ ان سہولیات سے  ہماری نسلوں کو صرف اور صرف معاشرے کی ترقی اور تکامل کے کاموں میں استعمال کرنے کی تلقین کریں۔جس فیس بک کے ذریعے پیغمبر اکرمؐ اور ان کی پاک آل کا پیغام  دنیا تک پہنچا سکتا ہے، ہمارے اعتقادات سے دنیا کوآشنا کیا جاسکتا ہے، معاشرتی اصلاح کی باتیں شیئر کرسکتے ہیں، ظالموں کے خلاف آواز اٹھا سکتے ہیں، مظلوموں کی حمایت کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے عزیزوں کی زیارت کرسکتے ہیں۔ اسی سے اگر غلط فائدہ اٹھاکر فحاشی پھیلانے، نفرت ایجاد کرنے، فساد برپا کرنے اور اسلامی اقدار کو پامال کرنے والی چیزوں کے لیے استعمال کرے تب یہ معاشرے ،گھر اور ملک  بلکہ پوری دنیا کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے۔ البتہ موجودہ زمانے کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے والدین ، بھائیوں اور رشتہ داروں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اپنی ماں بہنوں کے ہاتھوں ضرورت سے زیادہ موبائیل وغیرہ نہ تھمائیں بالخصوص جن کی ابھی تک شادی بھی نہیں ہوئی ان کے ہاتھوں ایسی چیزوں کا تھمانا ایسا ہی ہے جیسے ایک غیر ممیز بچے کے ہاتھ میں آگ کا انگارا دینا۔ لہذا ان کو ہمیشہ تحت نظر رکھنا اشد ضروری ہے۔

یہ حقیقت ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ ہاری ہوئی جنگ کو دوبارہ جیت میں تبدیل کیا جاسکتا ہےمگر تہذیب  و ثقافت کی شکست پوری قوم کو تباہ و برباد کردیتی ہے۔ آج کل زیادہ تر انٹرنیٹ کا استعمال فحش و بے حیائی و اخلاقی بگاڑ کی طرف دعوت، مذہبی جذبات کو مجروح کرنے اور غلط معلومات کو پھیلانے میں ہورہا ہے۔ آج کل سوشل نیٹ ورکینگ کا چلن فروغ پارہا ہے۔ فیس بک کا استعمال لڑکے لڑکیوں کو نشے کی لت کی طرح لگ جاتا ہے اور اس میں نئی نئی دوستیاں صنف مخالف سے ہوتی ہیں اور پھر معاملات پیار، شادی اور زنا تک پہنچ جاتے ہیں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے لڑکے لڑکوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر بھی کاری ضرب لگتی ہے۔ لہذا گھر کے ذمہ دار افراد کو اپنے گھر والوں کی آئی ڈی وغیرہ وقتا فوقتا چیک کرتے رہنا چاہیے۔ ساتھ ہی پولیس اور دوسرے ذمہ دار ادارے اپنی ذمہ داریوں کو صحیح معنوں میں نبھائے نہ کوئی وجہ نہیں کہ معاشروں سے جرم  کا تدارک نہ ہوسکے۔ اس لیے جوابدہی کے نظام کو بھی بہتر بنانا ہوگا۔(3) بنابریں جہاں جدید ٹیکنالوجی زندگی میں آسانیوں کا سبب ہے وہاں پر اس کا غلط استعمال انسانی زندگی کو اجیرن بھی بنا سکتا ہے۔


تحریر۔۔۔۔۔ سید محمد علی شاہ الحسینی

وحدت نیوز (کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن کے رہنمااور کونسلر کربلائی عباس علی نے اپنے جاری کردہ بیان میں کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او کی نااہلی کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب تک کرپٹ اور نااہل افسران ملک و قوم کے خدمت پر فائز کئے جائیں گے ، ملک کو ترقی نہیں ملے گی۔ اپنے اختیارات کے ناجائز استعمال اور قانون کی خلاف ورزی پر ایس ڈی او کیسکو مری آباد ڈویژنکی کارکردگی کا نوٹس لیا جانا چاہئے کیونکہ عہدے کا استعمال خدمت کے بجائے ذاتی مفادات کیلئے کیا جارہا ہے اور جو افراد اپنے ذاتی مفادات کو قوم کے مفادات پر ترجیح دے وہ کبھی محب وطن نہیں ہو سکتا۔

انہوں نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوامی نمائندے ہیں اور یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کرے، انہیں جو مسائل درپیش ہیں ان پر نظر رکھیں اور ان کے حل کیلئے ہم قانونی طور پر اقدامات اٹھاتے ہیں ، جسکا حق ہمیں آئین پاکستان دیتا ہے ۔ مگر کچھ افراد اور اعلیٰ افسران جنہیں عوام کی خدمت پر فائز کیا جاتا ہے اور جنہیں ہمارا ساتھ دینا چاہئے،وہ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرتے ہیں اور انکی وجہ سے ہمیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے علاقوں میں سٹریٹ لائٹس کی عدم موجودگی کا سامنا ہے، جس سے کئی مسائل جنم لے رہے تھے اور ہمیں علاقوں میں سٹریٹ لائٹس لگوانے تھے۔ ہم نے قانونی چارہ جوئی کی اور قانون پر عمل کرتے ہوئے سٹریٹ لائٹس اور بجلی کے ٹرانسفرمرز لگوانے کیلئے حکومتی نوٹس حاصل کیا اورنوٹس کے حصول کے بعد ہم وقت ضائع کئے بغیر عوام کی خدمت کیلئے نکل پڑے ، جن سڑکوں اور گلیوں میں لائٹ لگوانے کی ضرورت تھی ہم نے اپنے جائزے اور علاقہ مکینوں سے مشورے کے بعد وہاں لائٹس لگوائے مگر چند ہفتوں بعد ہی کیسکو مری آباد ڈویژن کے ایس ڈی او اسماعیل شاہ کے حکم پر متعلقہ ادارے کے نمائندوں نے تمام سٹریٹ لائٹس جمع کر دیئے اور عوام کیلئے حکومت سے حاصل کردہ ٹیوب لائٹس پر قبضہ کر لیا گیا۔ جو کہ عوام کی حق تلفی اور قانون شکنی کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کہ ملکی ترقی کیلئے قائم کردہ اداروں میں ایسے کرپٹ افراد کی تعیناتی ملک کی پسماندگی کا اہم سبب ہے۔ نیب ایسے افسران پر کھڑی نظر رکھیں جو اپنے عہدے کا ناجائز استعمال کرتے ہیں اور حکومت اس بات کا نوٹس لے اور کیسکو مری آباد ڈویژن میں کسی قابل اور ہونہار ایس ڈی او کو تعینات کرے تاکہ عوام کے مسائل حل ہو سکے۔

وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ کے رہنماء اورکونسلرکربلائی رجب علی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ جمہوریت ارتقاء سے عبارت کا نام ہے، جو آنے والے دن کے گزر جانے والے دن سے بہتر ہونے کا نام ہے۔ یوں مطلوب حد تک جمہوری معاشرے کی تشکیل بتدریج لیکن مسلسل بہتری کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ کہ عوام الناس میں اس امر کا یقین پیدا ہو جائے کہ وہ جس طرح معاشرے میں رہ رہے ہیں ، اس کا ارتقائی عمل میں وہ شریک اور مطمئن ہیں۔ اور اس پر فخر کرتے ہیں ۔ بہتری کے تسلسل میں تعطل کسی رکاوٹ یا پیچیدگی کا پتہ دیتی ہے اور اگر تعطل جلد جلد ہونے لگے تو جمہوری عمل سست پڑنے لگتا ہے۔ایسے میں غیر جمہوری ماحول حاوی ہونے لگتا ہے۔ اگر ملک و قوم کی بقاء و استحکام کیلئے جمہوری طرز حکومت سیاست اتنا ہی ناگزیر ہے جتنا ہمارے معاشرے میں قرار دیا جاتا ہے تو بتدریج لیکن مسلسل بہتری کیلئے مطلوب ہے کہ حکومت اور حکومتی یا اتحادی جماعتوں اور مقابل مخالف سیاسی جماعتوں کا سیاسی ابلاغ جو خود تواتر سے جاری رہتا ہے۔اس میں کبھی کمی نہیں آتی۔ لیکن یہ جمہوری عمل کو روک لیتا ہے۔ یہ جمہوری ارتقائی عمل میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جذباتی ، غیر مدلل الزامات جوابی الزامات سے غیر محتاط اور غیر متوازن یہ ابلاغ مسلسل معاشرے میں ہلچل مچائے رکھتا ہے۔گویا اظہار رائے کی آزادی کا حق استعمال کرتے ہوئے سیاستدانوں ، حکمرانوں اور وزراء نے اپنی غیر ذمہ داری سے میڈیا کی آزادی کو اپنے لپیٹ میں لے لینے ہیں۔ یہ سب کچھ آزادی اظہار رائے کے آئینی حق کی آڑ میں ہی ہوتا ہے۔ میڈیا اور سیاسی جماعتیں باہم مل کر اس کا سبب بنتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ صورت حال سیاسی جماعتوں اور ان کے رہنماؤں اور کارکنوں میں غیر ضروری حد تک فاصلوں اورتناؤ کا باعث بنتی ہے ۔ یوں قومی سیاست کا مرکزی دھار تو کمزور رہتا ہے اور کھینچا تانی جگہ بناتی جاتی ہے۔یہی ماحول جمہوری عمل کے ارتقاء کو روک دیتی ہے۔ پارٹیوں میں بھی قیادت کا آمرانہ طرز عمل اور جاگیردار کاسا رویہ شاہی کلچر کی تشکیل کی طرف مائل ہوتا ہے کہ سیاسی ابلاغ دوسری جماعتوں کیلئے جتنا آزادانہ اور غیر زمہ دار نہ ہوتا ہے۔ اپنی پارٹیوں کے اندر اتنا ہی گھٹا ہوا اور تکبر اور خوشامد سے پر ہوتا ہے۔ گویا پورٹیوں کے اندر اور باہر ہر طرف سیاسی سیاسی ابلاغ بیمار ہی ہوتا ہے۔ یہی ماحول بڑھتا بڑھتا ملکی سیاسی و جمہوری عمل اور اقتصادیات کیلئے مہلک بن جاتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ سیاسی ابلاغ سیاسی استحکام اور عدم استحکام دونوں کا باعث بنتا ہے۔

وحدت نیوز (حیدرآباد) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکریٹری سیاسیات علامہ مقصود علی ڈومکی نے جئے سندہ محاذ کے چیئرمین ریاض علی چانڈیو کی رہائش گاہ پران کے بھائی کی وفات پر تعزیت کی۔ اس موقع پر برادر ندیم جعفری و دیگر ان کے ہمراہ تھے۔

وحدت نیوز(پشاور) تبدیلی کا نعرہ لگانے والی پی ٹی آئی کی حکومت کے پی کے میں عوام کی جان و مال کی حفاظت میں ناکام ہوچکی ہے،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین کے پی کے کے سیکرٹری جنرل علامہ سبطین حسینی نے مسجد حیات آباد کی پہلی برسی کے موقع پر جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا ،دارالحکومت پشاور میں منعقدہ شہداء کی پہلی برسی سے خطاب میں انکا مزید کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی حکومت سے بالکل مایوس ہوچکے ہیں ،البتہ حسینیت کا سفر جو کہ قربانیوں اور جا نفشانیوں کا سفر ہے جاری رہیگا۔

آج ہزاروں افراد کی موجودگی اور شہداء کی یاد اس بات کی دلیل ہے کہ قوم نے شہداء کے مشن کو جاری رکھنے کا تہیہ کر رکھا ہے مساجد اللہ تعالی کا گھر ہیں اسکی حفاظت اللہ نے کرنی ہے اور مسجد بھی شہداء کا مشھد اور مقتل ہیں تا قیامت تک ہمارے اذہان احرار شہیدوں کی یاد سے محو نہیں ہوگا۔

وحدت نیوز (لاہور) دوماہی مجلہ بصیرت کے مدیر جناب ظہیر الحسن کربلائی نے مجلس وحدت مسلمین کے تمام سیکرٹری جنرل حضرات سے درخواست کی ہے کہ وہ مجلہ بصیرت کی ممبر سازی مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں ۔ جن سیکرٹری جنرلز نے ممبر سازی کا کام مکمل کر لیا ہے انہیں چاہیے کہ ممبران کے کوائف بمعہ Rs.500رجسٹریشن فیس مرکزی شعبہ تربیت کے مندرجہ ذیل ایڈریس پر ارسال کریں ۔

کراچی ، مکان نمبر B-117 نیو رضویہ کوآپرٹیوہائوسنگ سوسائٹی بالمقابل کرن ہسپتال سکیم نمبر 33 کراچی یا بزریعہ ایمیل اس میل آئی ڈی پر ارسال کرسکتےہیں: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it. رابطہ نمبر : 03374646550/03004244863

لہٰذا تمام عہدیداروں اور کارکنان سے درخواست ہے کہ اس مہم میں فعالیت دکھائیں اور اپنی دینی اور الہٰی ذمہ داری کا ثبوت دیں ۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree