وحدت نیوز (کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل اور  شعبہ امور خارجہ کے سیکریٹری حجتہ السلام والمسلمین علامہ شفقت شیرازی نے کہا ہے کہ شام کی سرزمین پر بدترین شکست نے امریکہ کا سپر پاور ہونے کا بھرم خاک میں ملا دیا ہے، آل سعود اب اپنی آخری سانسیں لے رہے ہیں، انشاء اللہ ترکی بھی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اپنے منطقی انجام کو پہنچے گا۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے بارگاہ فاطمہ زہرا (س) انچولی سوسائٹی میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سیمینار کا انعقاد ایم ڈبلیو ایم کراچی کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اس موقع پر  علامہ مبشر حسن، علامہ صادق جعفری، میثم عابدی، احسن عباس رضوی، زین رضوی سمیت  شرکاء کی بڑی تعداد موجود تھی۔  اپنے خطاب میں علامہ شفقت شیرازی کا کہنا تھا کہ امریکہ نے آل سعود اور ترکی سمیت اپنے تمام حواریوں کے ساتھ مل کر شام کو بدامنی کا شکار کرنے کا جو جال بچھایا تھا، آج مقاومت کے بلاک کی حکمت عملی سے وہ بری طرح ناکام ہوگیا ہے، شام کی سرزمین پر دہشت گردوں کو بری طرح شکست ہورہی ہے، اور اب وہ لیبیا کی جانب فرار ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انقلاب اسلامی کی برکت کے اثرات آج پوری دنیا دیکھ رہی ہے اور امت کو تفرقہ کا شکار کرنے والا وہابیت کا بانی سعودیہ اب اپنی ہی سرزمین میں اپنی حکومت پچانے کیلئے پر تول رہا ہے لیکن وہ دن دور نہیں کہ  آل سعود کے اقتدار کا خاتمہ ہونے والا ہے۔ علامہ شفقت شیرازی کا کہنا تھا کہ آج یہ بلاک فقط شیعی بلاک نہیں ہے بلکہ ایک عالمی بلاک بن چکا ہے، روس اور چین کی شمولیت نے اب اس بلاک کی طاقت میں مزید اضافہ کردیا ہے،  اب داعش سمیت اس کو پیدا کرنے والے تمام   جنایت کاروں کا خاتمہ نزدیک ہے۔

وحدت نیوز (نیلم) مولانا سید فضائل حسین نقوی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین ضلع نیلم منتخب ، ریاستی سیکرٹری سیاسیات سید محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ نے حلف لیا ، تقریب حلف برداری میں ریاستی سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان آزاد جموں و کشمیر علامہ سید تصور حسین نقوی الجوادی ، سیکرٹری اطلاعات مولانا سید حمید حسین نقوی کی خصوصی شرکت، اس موقع پر مجلس وحدت مسلمین ضلع نیلم کے کارکنان و عہدیداران بھی موجود تھے ، مولانا فضائل نقوی نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم رواداری، امن اور اتحاد بین المسلمین کے لیئے کام کریں گے ، ہمارا مقصد و مشن خدمت خلق ہے، نیلم کے خوبصورت ماحول میں امن کی فضا کو یقینی بنانا یہاں کے شیعہ سنی عوام کا خاصہ ہے، مجلس وحدت مسلمین اتحاد بین المسلمین کا پیغام لیکر گھر گھر جائے گی ، ملک و قوم کی خدمت مجلس کا ہر کارکن اپنا فرض سمجھتا ہے، ہم ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کے محافظ ہیں ، نیلم کے عوام جو کہ کنٹرول لائن پر بستے ہیں ، شدید مشکلات کا شکار ہیں ، حکومت و اپوزیشن صرف اقتدار و کار انجوائے کر رہے ہیں ، ہم نیلم کی عوام کے لیئے مضبوط آواز بنیں گے ۔

وحدت نیوز (گلگت) انسداد دہشتگردی کی عدالت نے سیکرٹری جنرل مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان علامہ شیخ نیئر عباس مصطفوی کی درخواست ضمانت منظور لی اور آج گلگت جیل سے ضمانت پر رہا ہوگئے۔ تفصیلات کے مطابق گزشتہ سال یمن پر سعودی جارحیت کے خلاف اور یمن میں پاکستانی فوج بھیجنے کی مخالفت میں ملک بھر کی طرح گلگت میں بھی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن اور مجلس وحدت مسلمین کے زیراہتمام ریلی نکالی گئی تھی جسکے بعد گلگت کی صوبائی حکومت نے شیخ نیئر عباس مصطفوی سمیت دیگر آٹھ رہنماوں پر انسداد دہشتگردی اور غداری کے مقدمات درج کرائے تھے۔ شیخ نیئر عباس مصطفوی نے عدالت میں چند روز قبل گرفتاری دیدی تھی اور انہیں جوڈیشل ریمانڈ پر گلگت جیل بھیج دیا گیا تھا۔ آج انکی انسداد دہشتگردی گلگت کی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق شیخ نیئر عباس مصطفوی علیل ہیں اور زیرعلاج ہے، جیل میں بھی انکا آپریشن ہوا تھا اور ابھی مزید علاج کے لیے اسلام آبادریفر کردیا گیا ہے۔

وحدت نیوز (اسلام آباد) موجودہ حکمران جماعت نے ممتاز قادری کی سزا پرعجلت کا مظاہرہ کر کے عوام کو ہیجانی کیفیت میں ڈال دیا ہے،مذہبی جماعتوں کی سفارشات پر غور نہ کر کے حکمرانوں نے بڑی غلطی کی ہے،قانونی تقاضوں کو پورا نہ کرنا حکمرانوں کی نااہلی ہے،ناموس رسالت ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے،سانحہ ماڈل ٹاوُن،سانحہ داتا دربار،عبداللہ شاہ غازی سمیت ہزاروں پاکستانیوں کے قاتلوں اور ان کے سہولت کاروں کیخلاف حکمران کیوں خاموش ہیں،ان خیالات کا اظہار مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے سربراہ علامہ راجہ ناصر عباس جعفری نے چئیرمین سنی اتحاد کونسل پاکستان صاحبزادہ حامد رضا سے ٹیلیفونک گفتگو کرتے ہوئے کیا۔

 انہوں نے کہا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں Pick & Choose کا عمل بیرونی ایجنڈے کا حصہ ہے،دکھ کی اس گھڑی میں ہم اپنے بریلوی بھائیوں کیساتھ ہیں،پنجاب سمیت ملک بھر میں کالعدم شدت پسند عناصر آزاد ہیں،ہم اس بیلنس پالیسی کے عمل کی مذمت کرتے ہیں،انہوں نے کہا کہ ایسے حساس معاملات میں علماء اور سیاست دانوں کو معاملے کی حساسیت کو مدنظر رکھتے ہوئے عفو و درگذر کے لئے فریقین کے مابین مصالحتی عمل کے لئے کردار ادا کرنا چاہیئے تھا،ریمنڈ ڈیوس کو دیت کے عوض امریکی خوشنودی کے لئے معافی مل سکتی ہے تو اس حساس مسلئے میں حکمران کیوں غفلت کے مرتکب ہوئے،ہمیں اپنے صفوں میں بیٹھے سازشی عناصر سے ہوشیار رہنا ہوگا جو اس نازک موقع کو اپنے مذموم عزائم کی تکمیل کے لئے استعمال نہ کرلیں۔

وحدت نیوز (مانٹرنگ ڈیسک) رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے صوبہ اصفہان کے شہر نجف آباد سے ملاقات کے لئے آنے والے ہزاروں لوگوں کے اجتماع سے خطاب میں انتہا پسندی اور میانہ روی کی تشریح کی اور پوری قوم اور خاص طور پر حکام اور سیاسی رہنماؤں کو موجودہ انتخابی ماحول میں دشمن کی اس چال کی طرح سے بہت ہوشیار رہنے کی دعوت دی جس کے تحت وہ معاشرے کو دو حصوں میں تقسیم معاشرہ دکھانا چاہتا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے انتخابات کو قوم کے پورے قد سے کھڑے ہونے کا میدان، قومی استقامت و وفاداری اور ملکی خود مختاری و وقار کی حمایت کی جلوہ گاہ قرار دیا۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ جو لوگ اسلامی مملکت ایران کے وقار سے لگاؤ رکھتے ہیں انھیں چاہئے کہ جمعے کو ہونے والے انتخابات میں شرکت کریں اور دنیا چھبیس فروری کو دیکھے گی کہ ایران کے عوام کس طرح والہانہ انداز میں پولنگ اسٹیشنوں پر جمع ہوتے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کی شہادت کے ایام کا حوالہ دیا اور جمعے کو پارلیمنٹ اور ماہرین کی کونسل کے دو انتہائی اہم انتخابات کے انعقاد کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ ملک کے اندر انتخابات کی اہمیت صرف ووٹ دے دینے تک نہیں ہے بلکہ انتخابات کا مطلب ہے گوناگوں دباؤ، ظالمانہ پابندیوں اور خباثت آمیز پروپیگنڈوں کے بعد دشمن کے سامنے ملت ایران کا سینہ سپر ہوکر اپنی توانائیوں کا اظہارکرنا۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابات میں عوام کی وسیع شرکت سے دنیا میں ایک بار پھر اسلامی انقلاب کی عظمت و ہیبت ظاہر ہوگی۔ آپ نے فرمایا کہ انتخابات سے ملی قوت و عزم و استقامت کا مظاہرہ ہونے کے ساتھ ہی خبیثانہ عزائم کے مقابلے میں ایک باعظمت قوم کی دلیری و شجاعت و وفاداری کی بھی نمائش ہوگی۔

رہبر انقلاب اسلامی نے انتخابات میں رائے دہندگان کی شرکت کی اہمیت کا ذکر کرنے کے بعد انتخابات کے مختلف مواقع پر گزشتہ 37 سال سے جاری دشمن کی سازشوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایران میں ہونے والے انتخابات کو نمائشی قرار دینا، انتخابات میں عوام کی شرکت کو محدود کرنا اور پہلے سے ہی نتیجہ طے ہونے کا تاثر دیکر انتخابات میں عوام کی شرکت کو بے معنی ظاہر کرنا وہ چالیں رہی ہیں جو بدخواہوں نے عوام کو انتخابات سے دور رکھنے کے لئے اپنائی ہیں اور بعض مواقع پر تو امریکی حکام نے صریحی بیان بھی دئے ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ امریکیوں کو تجربے سے یہ بات سمجھ میں آ چکی ہے کہ وہ آشکارا طور پر کوئی موقف اختیار کریں گے تو نتیجہ اس کے بالکل الٹ نکلے گا۔ آپ نے فرمایا کہ یہی وجہ ہے کہ اس دفعہ انتخابات کے سلسلے میں امریکیوں نے سکوت اختیار کر رکھا ہے، مگر ان کے آلہ کار اور ان کی کاسہ لیسی کرنے والے مختلف طریقوں سے نئی سازش پر عمل پیرا ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس نئی سازش کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا کہ ملت ایران کے بدخواہوں نے اس دفعہ انتخابات میں فرضی طور پر دو قطب بنا دئے ہیں تاکہ یہ تاثر عام کریں کہ عوام دو دھڑوں میں تقسیم ہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ دوسرے تمام مقابلوں کی طرح انتخابات کے مزاج میں بھی جوش و خروش، برتری اور عدم برتری شامل ہے، مگر انتخابات میں برتری اور عدم برتری کا مطلب قوم کا دو دھڑوں میں تقسیم ہو جانا نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب سماج کو تقسیم کرنا اور عوام میں ایک دوسرے کے خلاف عناد اور دشمنی ہے، ایران میں اس طرح کے دو دھڑے موجود ہونے کی بات سراسر جھوٹ ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا کہ ایران میں محاذ بندی اگر ہوئی تو وہ اسلامی انقلاب اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے اصولوں کے وفاداروں اور استکباری محاذ اور اس کے ہم نواؤں کے مابین ہوئی، تاہم اس محاذ بندی میں پوری ملت ایران انقلابی، انقلاب سے محبت کرنے والی اور امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور آپ کے اصول و نظریات کی وفادار ہے۔ ‏رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ جھوٹی محاذ بندی کی جڑ ملک کے باہر ہے، مگر افسوس کا مقام ہے کہ بعض اوقات ملک کے اندر بھی اس کی بازگشت سنائی دیتی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخابی ماحول میں حکومت مخالف اور حکومت نواز پارلیمنٹ جیسی تقسیم کی بات بھی ایک جھوٹی محاذ بندی ہے، آپ نے فرمایا کہ اس قسم کی دو قطبی فضا کا تاثر دینے والے یہ ذہنیت پیدا کرنا چاہتے ہیں کہ ملت ایران کا ایک حصہ حکومت نواز پارلیمنٹ کا حامی ہے اور دوسرا حصہ حکومت مخالف پارلیمنٹ چاہتا ہے، جبکہ حقیقت میں ملت ایران کو نہ تو حکومت نواز پارلیمنٹ چاہئے اور نہ حکومت کی مخالف پارلیمنٹ کی ضرورت ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ملت ایران ایسی پارلیمنٹ چاہتی ہے جو متدین، فرض شناس، شجاع، فریب میں نہ آنے والی، استکبار کی توسیع پسندی اور حرص و طمع کا ڈٹ کا مقابلہ کرنے والی، قومی وقار اور خود مختاری کی محافظ، ملک کی پیشرفت و ترقی کی پابند، نوجوانوں کی علمی استعداد کو متحرک کرنے پر یقین رکھنے والی، داخلی وسائل پر استوار معیشت کی حامی، عوام کے درد کو سمجھنے والی اور عوام الناس کی مشکلات حل کرنے کا عزم رکھنے والی ہو، امریکا سے مرعوب نہ ہو اور اپنے آئینی فرائض پر عمل کرے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ ایران کے عوام ایسی پارلیمنٹ چاہتے ہیں، کسی شخص کی طرفدار پارلیمنٹ نہیں۔

رہبر انقلاب اسلامی نے اس کے بعد ایٹمی مسئلے میں جامع ایکشن پلان نافذ ہو جانے کے بعد کے دور کے لئے امریکا کی سازشوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ جے سی پی او اے کے بعد امریکیوں نے ایران اور علاقے کے لئے دو الگ الگ منصوبے بنائے اور آج بھی انھیں منصوبوں پر کاربند ہیں، کیونکہ انھیں بخوبی علم ہے کہ علاقے میں ان کے مذموم مقاصد کے سامنے کون سا ملک ہے جو مضبوطی سے ڈٹا ہوا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ ایران کے سلسلے میں امریکیوں نے اپنی سازش کے تحت درانداز عناصر کے استعمال کی روش اختیار کی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جب دراندازی اور اس مسئلے کی طرف سے ہوشیاری برتے جانے کا موضوع زیر بحث آیا ہے، ملک کے اندر کچھ لوگ برافروختہ ہو گئے کہ بار بار دراندازی کی بات کیوں کہی جاتی ہے، لیکن یہ برافروختگی بے جا اور غیر ضروری ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ درانداز اور دراندازی کا معاملہ ایک حقیقی معاملہ ہے، البتہ بعض اوقات دراندازی میں ملوث شخص کو خود بھی اندازہ نہیں ہوتا کہ وہ کس راستے پر چل نکلا ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے دور اندیش اور طویل تجربات رکھنے والے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے ان بیانوں کا حوالہ دیا جن کے مطابق بعض اوقات دشمن کی بات کئی واسطوں سے گزرتے ہوئے اچھے بھلے افراد کی زبان سے سنائی دیتی ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اس محترم انسان نے نہ تو کسی سے پیسہ لیا ہوتا ہے، نہ کسی سے کچھ وعدہ کیا ہوتا ہے، مگر لاعلمی میں ہی دشمن کی بات دہراتا ہے اور ایک طرح سے دراندازی کی زمین ہموار کرنے لگتا ہے۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایسے دراندازوں کی کچھ مثالیں پیش کیں جن کو خود بھی امر واقعہ کا اندازہ نہیں تھا۔ آپ نے فرمایا کہ گزشتہ برسوں کے دوران ایک رکن پارلیمنٹ نے ایوان کی کھلی کارروائی کے دوران دشمن کی بات دہراتے ہوئے اسلامی نظام پر دروغ گوئی کا الزام لگا دیا۔ ایک اور مثال پیش کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے کہا کہ جس زمانے میں ہمارے ملک کی ایٹمی مذاکراتی ٹیم سخت مذاکرات میں مصروف اور فی الواقع فریق مقابل سے محو پیکار تھی اور موجودہ صدر محترم اس وقت مذاکراتی ٹیم کے سربراہ تھے، کچھ لوگوں نے پارلیمنٹ میں ایسی ہنگامی قرارداد پیش کی جس سے فریق مقابل کی بات کی تائید ہوتی تھی اور موجودہ صدر محترم نے اس وقت اس قرارداد کا شکوی کیا اور کہا تھا کہ یہ قرارداد دشمن کے فائدے میں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے پوری قوم اور خاص طور پر حکام اور سیاسی رہنماؤں کو دشمن کی دراندازی کی کوششوں سے بہت ہوشیار رہنے کی سفارش کی اور فرمایا کہ توجہ اور ہوشیاری کا تقاضا یہ ہے کہ اگر دشمن، عوام کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے مقصد سے کسی ایک گروہ یا شخص کی تعریف کر رہا ہے تو فورا اظہار بیزاری کیا جائے اور اس کے بالکل الٹ موقف اختیار کیا جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ جملہ نقل کیا کہ "اگر دشمن آپ کی تعریف کرے تو آپ اپنے روئے اور عمل کو شک کی نظر سے دیکھنا شروع کر دیجئے۔" رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ یہ قول انقلاب کا دستور العمل ہے، بنابریں اغیار کی تعریف کے خلاف فورا موقف اختیار کرنا چاہئے اور ہرگز غفلت نہیں برتنی چاہئے۔ آپ نے زور دیکر فرمایا کہ ایران جیسے وسیع ملک کا انتظام سنبھالنا اور اپنے عظیم و شجاع عوام کے امور کو آگے بڑھانا، دشمن کے مقابلے میں ہوشیاری، کھلی آنکھوں سے کام کرنے اور عزم راسخ کا متقاضی ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے حکام اور سیاسی رہنماؤں کو دشمن کی سیاسی اصطلاحات کو دہرانے اور انتہا پسند اور 'میانہ رو' جیسے الفاظ استعمال کرنے سے پرہیز کئے جانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے وقت سے ہی بدخواہ عناصر یہ اصطلاحیں استعمال کر رہے تھے اور انتہا پسند سے ان کی مراد وہ افراد ہوتے ہیں جو اسلامی انقلاب کی نسبت اور امام خمینی کے اصولوں اور نظریات کی نسبت زیادہ پابند اور باعزم ہیں، جبکہ اعتدال پسند سے ان کی مراد وہ افراد ہیں جو اغیار کے سامنے جھک جائیں اور ان سے ساز باز پر تیار ہوں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ جو لوگ ملک کے اندر یہ الفاظ استعمال کر رہے ہیں انھیں چاہئے کہ اسلامی تعلیمات کا دقت نظری سے مطالعہ کریں، کیونکہ اسلام میں اس طرح کی تقسیم بندی کا کوئي وجود نہیں ہے، اسلام میں 'وسط یا میانہ کا لفظ راہ مستقیم کے لئے استعمال کیا گيا ہے۔ لہذا میانہ روی کے مقابل جو لوگ ہیں وہ انتہا پسند نہیں بلکہ صراط مستقیم سے منحرف افراد ہیں۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ راہ مستقیم پر آگے بڑھتے ہوئے ممکن ہے کہ کچھ لوگ زیادہ تیزی سے آگے بڑھیں اور کچھ کی رفتار کم ہو، اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اغیار کی سیاسی اصطلاح میں داعش کو بھی انتہا پسند کہا جاتا ہے جبکہ داعش اسلام، قرآن اور صراط مستقیم سے منحرف تنظیم ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا کہ جو لوگ غیر ممالک میں انتہا پسند کی اصطلاح استعمال کر رہے ہیں ان کے نشانے پر انقلاب کے وفادار حلقے ہیں، لہذا ملک کے اندر بہت احتیاط برتنا چاہئے کہ یہی الفاظ دہرا کر دشمن کے ہدف کی تکمیل نہ کی جائے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے امریکیوں کے اس تبصرے کا حوالہ دیا کہ ایران میں کوئی اعتدال پسند نہیں ہے، آپ نے فرمایا کہ پوری ملت ایران، انقلاب کی ہمنوا ہے اور سب انقلاب سے وابستہ ہیں، البتہ ممکن ہے کہ بعض اوقات غلطی یا لغزش ہو جائے، مگر ایران کے عوام میں کوئی بھی اغیار پر انحصار کا حامی ہرگز نہیں ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے انتخاب کی روش کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے عوام سے کہا کہ اس الیکشن میں آپ کا جو بھی انتخاب ہوگا، خواہ وہ اچھا ہو یا برا، اس کے نتیجے کا سامنا آپ ہی کو کرنا ہے، لہذا یہ کوشش کی جانی چاہئے کہ انتخاب بالکل درست ہو۔

رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا کہ انتخاب کی نوعیت کا ایک نتیجہ اللہ تعالی کی رضامندی یا ناراضگی بھی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ کوشش یہ ہونی چاہئے کہ انتخاب دقت نظری، بصیرت اور صحیح شناخت کی بنیاد پر انجام دیا جائے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے زور دیکر کہا کہ پارلیمنٹ مجلس شورائے اسلام کے ممبران اور ماہرین کی کونسل کے ارکان کے انتخاب کے سلسلے میں پہلے امیدواروں کی شجاعت، عزم، دشمن سے مرعوب نہ ہونا، راہ انقلاب میں استقامت، انقلاب سے وفاداری، فرض شناسی اور دینداری جیسے اوصاف کی بابت اطمینان حاصل کر لیجئے، اس کے بعد ووٹ دیجئے۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ اگر آپ بعض امیدواروں کی شناخت نہیں رکھتے تو یہ نہ کہئے کہ میں ووٹ ہی نہیں ڈالوں گا، بلکہ ان لوگوں سے مشاورت کیجئے جن کے تدین، بصیرت اور دیانت داری کی بابت آپ اطمینان رکھتے ہیں۔

آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے زور دیکر کہا کہ اس مسئلے میں، راستہ، ہدف اور فریضہ بالکل واضح ہے۔ آپ نے فرمایا کہ اگر یہ اہم کام بحسن و خوبی انجام پاتا ہے تو یقینا اس صورت میں اللہ تعالی بھی ہماری مدد کرے گا اور انتخابات کا نتیجہ جو بھی ہو ملک کے مفاد میں ہوگا۔

رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا کہ مجھے یقین ہے کہ بدخواہوں کی تمام تر کوششوں کے باوجود اللہ تعالی ملت ایران کو حتمی فتح عنایت کرے گا اور فضل پروردگار سے دشمن اس انقلاب اور اسلامی نظام پر کوئی ضرب نہیں لگا سکے گا۔

رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای نے اپنے خطاب میں اسی طرح اسلامی انقلاب کی راہ میں نجف آباد کے عوام کی اسقامت و پائيداری، انقلاب سے وفاداری، ان کی صداقت اور جذبہ ایمانی کی قدردانی کی۔ آپ نے فرمایا کہ نجف آباد کے عوام نے اسلامی تحریک کے زمانے میں اپنے جوش و خروش، فہم و شعور کا مظاہرہ کیا اور اسلامی انقلاب کی فتحیابی کے بعد مختلف مواقع اور خاص طور پر مقدس دفاع کے دوران اپنی شجاعت، حمیت، استقامت اور افادیت ثابت کی۔

رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے قبل نجف آباد کے امام جمعہ حجت الاسلام و المسلمین حسناتی نے اسلامی انقلاب کے دوران اور اس کے بعد مقدس دفاع کے برسوں میں اس شہر کے شہید پرور عوام کی شجاعت و ہمت کا ذکر کیا اور ڈھائی ہزار شہیدوں کا نذرانہ پیش کرنے جیسی ان کی عظیم قربانی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ نجف آباد کے وفادار عوام، اسلام، قرآن، امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ اور رہبر انقلاب سے اپنے عہد و پیمان پر قائم ہیں اور اپ نے خون کے آخری قطرے تک اس میثاق کے وفادار بنے رہیں گے۔

وحدت نیوز(مانٹرنگ ڈیسک) علامہ اصغر عسکری کا بنیادی تعلق جنوبی پنجاب کے ضلع بھکر سے ہے، ان کا شمار ملک کے متحرک اور فعال علمائے کرام میں ہوتا ہے، انہی خدمات کے نتیجے میں انہوں نے قید و بند کی صعوبتیں بھی برداشت کیں، اس وقت وہ انچارج مرکزی سیکرٹریٹ ایم ڈبلیو ایم اور مجلس وحدت مسلمین پنجاب کے ترجمان کی حیثیت سے اپنی ملی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں، جبکہ جامع الرضا(ع)اسلام آباد میں مدرس کے فرائض بھی سرانجام دے رہے ہیں، اسلام ٹائمز نے داعش کی پاکستان میں موجودگی، لال مسجد، دہشت گردی اور دیگر اہم موضوعات سے متعلق علامہ اصغر عسکری کا انٹرویو کیا، جو قارئین کے پیش خدمت ہے۔ ادارہ

اسلام ٹائمز: شہید باقر النمر نفس ذکیہ کے قتل پر پاکستان میں احتجاج کم ہوا، شہید کا چہلم بھی خاموشی سے گزر گیا، کیا وجوہات ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: شہید باقر النمر ایک آفاقی شخصیت تھے اور ان کی سعودی عوام کے حقوق کے لئے بھرپور جدوجہد انکے بلند ویژن کی علامت ہے۔ دنیا بھر میں ان کا بھرپور تعارف تھا، اسی لئے ان کی شہادت پر امریکن صدر بھی بیان دینے پر مجبور ہوتا ہے اور برطانیہ کا وزیراعظم بھی مذمتی بیان جاری کرتا ہے۔ جہاں تک پاکستان میں اس سانحے پر احتجاج کی بات ہے، تو میرے خیال میں تقریبا ملک کے تمام بڑے شہروں میں بھرپور احتجاج ہوئے اور اسلام آباد میں ایک ہفتہ کے اندر تین بڑی ریلیاں ہوئیں۔ اگرچہ آپ کی بات درست ہے کہ جس سطح پر احتجاج ہونا چاہئے تھا، وہ نہیں ہو پایا۔ تمام شیعہ جماعتیں اگر اپنی ذمہ داری ادا کرتیں تو شاید اس سے بڑھ کر احتجاج ہوسکتا تھا۔ جہاں تک چہلم کی بات ہے تو تعزیتی ریفرنس بہت سے شہروں میں ہوئے کراچی، لاہور، فیصل آباد، ملتان اور اسلام آباد وغیرہ میں ایک لمبی لسٹ ہے ہمارے پاس، چونکہ ہم نے ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹریٹ سے تمام اضلاع میں رابطے کئے، ہمارے علم میں ہے کہ کہاں کہاں شہید باقر النمر کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اسلام آباد، لاہور، کراچی میں اس حوالے سے بہت بڑے بڑے اجتماعات ہوئے۔ جس میں شہید کی شخصیت کو خراج تحسین پیش کیا گیا۔

اسلام ٹائمز: پاکستانی فوج سعودی اتحاد میں شامل ہے، اور آئندہ دنوں میں چونتیس ملکوں کے اتحاد میں اہم کارروائیاں بھی کرسکتی ہے۔ مجلس وحدت مسلمین کا کیا ردعمل ہے۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! 34 ممالک کے اتحاد کا ڈرامہ اب دنیا کے سامنے آچکا ہے۔ سعودی حکومت اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔ ورنہ دنیا کو معلوم ہے کہ جس اتحاد میں دہشت گردی اور داعش کے خلاف فرنٹ لائن پر جو ممالک ہیں، اس کا انجام کیا ہوسکتا ہے اور وہ اتحاد کس حد تک چل سکتا ہے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ متحدہ عرب امارات نے یمن سے اپنی فوجیں واپس بلانے کا اعلان کیا ہے، چونکہ ان کو بہت زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ پھر دوسری بات یہ ہے کہ سعودیہ پہلے یمن کی جنگ سے تو نکلے، پھر شام جانے کی بات کرے۔ یمن کے انصار اللہ ہی سعودی حکومت کے خاتمے کا باعث بنیں گے اور جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو پاکستانی حکومت بھی سمجھتی ہے کہ اس اتحاد کا حصہ بننے کی کھل کر بات نہیں کی۔ چونکہ پاکستان جانتا ہے کہ افغان وار میں جا کر اسے کتنا بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ ہاں ملکوں کے آپس میں دفاعی معاہدے ہوتے ہیں۔ سعودیہ کے ساتھ پاکستان کے کچھ دفاعی معاہدے ہیں۔ فوجی تربیت ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر حکومت پاکستان اس اتحاد کا باقاعدہ حصہ بن کر شام کے خلاف کارروائی کی حمایت کرتی ہے تو اس کے خلاف نہ صرف مجلس وحدت مسلمین بلکہ پاکستان کی عوام بھرپور احتجاج کرے گی۔ کیونکہ ملکی مفاد ہمیں سب سے زیادہ عزیز ہے اور اس پر کبھی سودے بازی نہیں کرنے دیں گے۔

اسلام ٹائمز: پاک فوج دہشتگردوں کیخلاف پرعزم ہے لیکن دہشتگردی کا عفریت ختم ہونیکا نام نہیں لے رہا، گذشتہ دنوں جامع القائم ٹیکسلا پر بھی دہشتگردانہ حملے کی کوشش کی گئی، کیا حکمت عملی ہونی چاہیے۔؟
علامہ اصغر عسکری: اس میں کوئی شک نہیں کہ ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور دہشت گردوں کو چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی، مگر صرف فوج کافی نہیں ہے بلکہ حکومت اور عوام کو بھی ساتھ دینا ہوگا۔ نیشنل ایکشن پلان کے 22 نکات پر کتنی سنجیدگی سے عمل ہوا ہے؟ ایک اہم سوال ہے؟ ہمارے وزیر داخلہ صاحب اعتراف تو کرتے ہیں کہ بعض مدارس میں دہشت گردی میں ملوث ہیں، مگر ان مدارس میں سے کسی ایک مدرسہ کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ اس مائنڈ سیٹ کو ختم کرنا یہ فوج کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے۔ آج بھی انہیں مدارس میں دوسرے مسالک کے لوگوں کا کفر پڑھایا جا رہا ہے اور پھر اس میں علما و مفتیاں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ کالعدم جماعتوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، بلکہ ملک کی بعض سیاسی و مذہبی جماعتیں انہیں اپنے ساتھ بٹھاتی ہیں۔ ان سے تعاون کرتی ہیں۔ تو جب تک یہ تمام طبقات اپنی ذمہ داریاں ادا نہیں کریں گے، پاکستان میں امن ایک خواب رہے گا۔

اسلام ٹائمز: جنوبی پنجاب میں ٹارگٹڈ آپریشن کی بات کی گئی، تاہم عمل درآمد نظر نہیں آرہا، کیا کہیں گے۔؟
علامہ اصغر عسکری: جنوبی پنجاب دہشت گردوں کا گڑھ ہے، کے پی کے، کراچی، اندورن سندھ بلکہ بلوچستان میں جہاں جہاں دہشت گردی ہو رہی ہے۔ اس کے دہشت گردوں کا تعلق جنوبی پنجاب سے ہوتا ہے، لیکن حکومت چونکہ سنجیدہ نہیں ہے، خاص طور پر پنجاب حکومت کو اپنے اقتدار سے سروکار ہے۔ عوام مرتی ہے تو مرتی رہے۔ یہ ان کا مسئلہ نہیں، ہاں جس دن یہ دہشت گرد ان حکمرانوں کو آنکھیں دکھاتے ہیں اور انکے لئے خطرہ بنتے ہیں تو پھر وہ انکو مار بھی دیتے ہیں، جیسے ملک اسحاق کو مارا گیا۔ ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ آج تک کسی حکومت کی ترجیج کبھی عوام رہی ہی نہیں ہے بلکہ اپنے مفادات کے لئے اس ملک میں سیاست ہوتی ہے۔ ہمارا ہمیشہ مطالبہ رہا ہے کہ جنوبی پنجاب اور اندرون سندھ میں بھی ٹارگٹڈ آپریشن کیا جائے۔ جب تک ان علاقوں میں آپریشن نہیں ہوگا۔ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہے اور یہاں آپریشن نہیں ہوگا کیونکہ حکومت کے بعض وزرا کے ان دہشت گردوں سے رابطے ہیں اور وہ ان کی سرپرستی کرتے ہیں۔

اسلام ٹائمز: لال مسجد مافیا اس قدر طاقتور کیوں ہے کہ وزیر داخلہ بھی کوئی اقدام اٹھا نہیں پا رہا۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! لال مسجد کے خلاف کیوں کارروائی نہیں کی جاتی، آج حکمرانوں سے پاکستان کی پوری عوام کا یہی سوال ہے کہ کیا وجہ ہے وزیر داخلہ صاحب ایک طرف تو کہتے ہیں کہ مولانا عبدالعزیز کے خلاف کوئی FIR نہیں ہے، ہوگی تو کاروائی کریں گے اور جب FIR کا ریکارڈ دیا جاتا ہے تو پھر نہ صرف کوئی کارروائی نہیں ہوتی بلکہ اسلام آباد کی انتظامیہ کے لوگ رات کی تاریکی میں مولانا کو تھانے لاتے ہیں، تاکہ FIR ختم کرائی جا سکے، جبکہ کسے نہیں پتہ کہ لال مسجد نے دہشت گردوں کو نہ صرف پناہ دی بلکہ ان کی حوصلہ افزائی بھی کی ہے۔ اس مائنڈ سیٹ کو بنانے اور باقی رکھنے میں لال مسجد کا کردار ہے۔ ملک کے آئین کو وہ تسلیم نہیں کرتے۔ ان کے خلاف تو غدارِ وطن کا مقدمہ چلنا چاہئے۔ میں سمجھتا ہوں کہ لال مسجد اتنی طاقتور نہیں بلکہ ہمارے حکمران بزدل ہیں، ورنہ حکومتوں کے پاس بڑی طاقت ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں کو اپنا مفاد اور اپنا اقتدار عزیز ہے، وہ کبھی کسی ایسی مشکل میں نہیں پڑنا چاہتے، جس سے انکے اقتدار اور مفاد کو ذرہ برابر خطرہ ہو۔

اسلام ٹائمز: وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کئی پریس کانفرنسز میں بارہا کہہ چکے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا کوئی وجود نہیں، آپ اس حوالہ سے کیا موقف رکھتے ہیں۔؟
علامہ اصغر عسکری: دیکھئے! اب میڈیا اتنا آزاد ہے کہ لوگوں کو دھوکہ نہیں دیا جاسکتا۔ وزیر داخلہ کا یہ بیان کہ داعش کا پاکستان میں وجود نہیں ہے، حقیقت میں اپنی نااہلی چھپانے کے لئے ہے، ورنہ کون نہیں جانتا کہ سب سے بڑا سپورٹر خود مولوی عبدالعزیز ہے اور پھر پاکستان بھر میں جو لوگ ابو بکر بغدادی کو ویلکم کہہ رہے ہیں اور داعش کی وال چاکنگ کر رہے ہیں، یہ کون ہیں؟ ہمارے حکمران کہتے ہیں کہ یہ کالعدم جماعتیں ہیں، باقاعدہ کوئی داعش کا سٹریکچر نہیں ہے۔ یہ دھوکہ دینے کے مترادف ہے۔ داعش ایک آئیڈیالوجی کا نام ہے۔ جو لوگ بھی اس آئیڈیالوجی کے حامی ہیں، وہ داعش ہیں۔ اگرچہ وہ اپنے آپ کو داعش سے منسلک نہ کرتے ہوں۔ اصل وجہ وہی ہے جس کی طرف میں نے اشارہ کیا کہ اگر وزیر داخلہ صاحب یہ مان بھی لیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے، تو پھر خود ان کی کارکردگی زیر سوال آتی ہے اور کبھی اس کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہونگے۔ بہرحال جس دن ہمارے حکمران ان دہشتگردوں کے خلاف سنجیدہ ہوگئے، تو پھر ملک میں امن قائم ہو جائے گا۔ جن لوگوں کو پھانسی دی گئی ہے، آپ لسٹ اٹھا کر دیکھیں 360 افراد میں سے صرف 25 فیصد دہشت گرد تھے، ورنہ تو عام ذاتی جھگڑوں میں جو لوگ ملوث تھے، ان کو پھانسی ہوئی ہے۔

مجلس وحدت مسلمین پاکستان

مجلس وحدت مسلمین پاکستان ایک سیاسی و مذہبی جماعت ہے جسکا اولین مقصد دین کا احیاء اور مملکت خدادادِ پاکستان کی سالمیت اور استحکام کے لیے عملی کوشش کرنا ہے، اسلامی حکومت کے قیام کے لیے عملی جدوجہد، مختلف ادیان، مذاہب و مسالک کے مابین روابط اور ہم آہنگی کا فروغ، تعلیمات ِقرآن اور محمد وآل محمدعلیہم السلام کی روشنی میں امام حسین علیہ السلام کے ذکر و افکارکا فروغ اوراس کاتحفظ اورامر با لمعروف اور نہی عن المنکرکا احیاء ہمارا نصب العین ہے 


MWM Pakistan Flag

We use cookies to improve our website. Cookies used for the essential operation of this site have already been set. For more information visit our Cookie policy. I accept cookies from this site. Agree