وحدت نیوز (آرٹیکل) میں ایک سال میں تیسری مرتبہ اس موضوع پر قلم اٹھا رہا ہوں، دینی اداروں اور دینی مدارس کا موضوع انتہائی اہم ہے، اگر معیاری دینی اداروں؛ خصوصاً دینی مدارس کی بھرپور معاونت اور سرپرستی کی جائے تو بلاشبہ بڑی حد تک معاشرے سے جہالت، افلاس اور پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
معاشرہ سازی میں دینی مدارس اپنی مثال آپ ہیں، رضاکارانہ طور پر لوگوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کرنا ،دینی مدارس کا طرہ امتیاز ہے۔ ہمارے ہاں جہاں پر مخلص علمائے کرام اور با اصول لوگوں کی کمی نہیں وہیں پر دین کے نام کی تجارت کرنے والوں کی بھی بھرمار ہے۔
دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے اکثر اوقات دیندارلوگ خاموش رہتے ہیں۔ اس خاموشی کی ایک وجہ لوگوں کی دین سے محبت اور ہمدردی بھی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر ہم نے تحقیق کا دروازہ کھولاتو شاید دین کا نقصان ہوجائے گا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ دین کا نقصان تحقیق کے بجائے غیرمعیاری دینی مدارس سے ہورہاہے۔اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح دینی مدارس کے نصاب اور اساتذہ کو بھی زمانے کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا چاہیے لیکن اس میں بحث کی گنجائش موجود ہے کہ کس مدرسے کو حقیقی معنوں میں ایک دینی مدرسے کا عنوان دیا جانا چاہیے۔
ہمارے ہاں ابھی تک علمائے کرام نے ملکی سطح پرایک دینی مدرسے کے عنوان کے لئے کوئی معیار ہی طے نہیں کیا اور نہ ہی اس سلسلے میں کسی قسم کی منصوبہ بندی کی ہے ۔ اس عدمِ معیار کی وجہ سے بعض اوقات ایسے بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ کچھ جگہوں پر دینی مدارس کا عنوان فقط پیسے جمع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔
کسی بھی چاردیواری میں اِدھر اُدھر سے مجبوری کے مارے ہوئے چند بچے اکٹھے کر لئے جاتے ہیں اور پھر ان کے نام پر صدقات و عطیات کی جمع آوری شروع ہو جاتی ہے۔بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں سے کئی کئی لاکھ روپے فطرانہ جمع ہوتا ہے لیکن وہاں موجود بیواوں اور یتیموں کی بدحالی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔
بعض جگہوں پر ایسے بھی ہوا ہے کہ کچھ متولی کہلوانے والے حضرات پہلے تو صدقات و عطیات سے ایک مدرسے کی بلڈنگ کھڑی کرتے ہیں، پھر اس کے ساتھ ایک مسجد بھی تعمیر ہوتی ہے پھر لائبریری اور پھر۔۔۔ ایک لمبے عرصے تک یہ تعمیرات ہی ختم نہیں ہوتیں اور پھر اس مدرسے کے طالب علموں کی مدد کے عنوان سے گھر گھر میں چندہ باکس رکھ کر منتھلی آمدن کا بھی انتظام کیا جاتا ہے، ا س کے علاوہ قربانی کی کھالیں اور فطرانہ بھی جمع کیا جاتا ہے اور یہ سب کچھ ایک متولی کہلوانے والے فردِ واحد کے ہاتھوں میں ہوتاہے اور پھر اسی شخص کی نسلوں کو آگےمنتقل ہوتا رہتا ہے۔
ایک ایسا ملک جہاں دینی طالب علموں کے لئے کسی قسم کی کوئی سہولت نہیں،تعلیم کے بعد روزگار نہیں، اگربیمار ہوجائیں تو کوئی پوچھنے والا نہیں اور اگرخدانخواستہ حادثہ ہوجائے تو کوئی سہارا دینے والا نہیں ،اس ملک میں ایسے دینی مدارس بھی ہیں جنہوں نے پاکستان میں اور پاکستان سے باہر بھی طلاب کی خدمت کے نام پر مختلف مارکیٹیں ، ہوٹل اور حسینئے(امام بارگاہیں)بھی بنا رکھے ہیں لیکن اگر کوئی دینی طالب علم کبھی مجبوری سے کسی ہوٹل یا حسینئے میں رہنے کے لئے چلا جائے تو نہ صرف یہ کہ اس کے ساتھ کوئی رعایت نہیں کی جاتی بلکہ سب سے گندے کمرے طالب علموں کو ہی دئیے جاتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ اس طرح کے لوگوں نے اپنے اوپر مختلف اداروں کے لیبل بھی لگا لئے ہیں ، اور یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ یہ فلاں تنظیم، انجمن یا ٹرسٹ کا مدرسہ ہے جبکہ عملاً سب کچھ فردِ واحد کے پاس ہی ہوتا ہے۔
حالات کی سنگینی کے پیشِ نظر ہمارے ہاں کے علمائے کرام کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایک طرف تو نصاب، اساتذہ اور طلاب کی تعداد کے حوالے سے دینی مدارس کے عنوان کے لئے ایک معیار طے کریں اور کسی بھی شخص کو دینی مدرسے کے معیار کو پامال کرنے کی اجازت نہ دیں۔ جبکہ دوسری طرف مخیر حضرات کو یہ شعور دینا بھی علمائے کرام کی ہی ذمہ داری ہے کہ دیانت دار اور امین لوگوں تک وجوہات شرعی پہنچائے بغیر ان کی ذمہ داری ادا نہیں ہو جاتی۔
لہذا مخیر حضرات کسی بھی ادارے کے پمفلٹ پڑھ کر یا کسی کی باتوں سے متاثر ہوکر اسے عطیات و وجوہات دینے کے بجائے ممکنہ حد تک اس ادارے کا وزٹ کریں، اس کے طالب علموں کا رزلٹ دیکھیں، اس کے اساتذہ کی علمی صلاحیت اور معیار کا پتہ لگائیں، اس ادارے کے ممبران یا ٹرسٹیز کے بارے میں معلومات لیں کہ واقعتا سب کچھ چیک اینڈ بیلنس کے تحت ہورہاہے یا فقط ادارے کا نام استعمال ہورہاہے۔ یہ بھی دیکھنے والی چیز ہے کہ جو لوگ دینی و جدید تعلیم کے حسین امتزاج کا نعرہ لگاتے ہیں ان کے بارے میں یہ بھی معلوم کیا جائے کہ وہ خود کس قدر جدید تعلیم سے آشنا ہیں۔
المختصر یہ کہ مخیر حضرات کو چاہیے کہ کسی بھی ادارے کی پراسپیکٹس اور ادارے کی حقیقی صورتحال کا خود یا کسی بھی ممکنہ طریقے سے ضرور جائزہ لیں۔
یہ ہمارا اجتماعی مزاج بن گیا ہے کہ ہم حکومتی کاموں پر تو تنقید کرتے ہیں اور حکومتی امور کوٹھیک کرنے کے لئے احتجاج کرتے ہیں لیکن دینی امور اور اداروں میں اصلاح کے بجائے خاموش رہنے کو ترجیح دیتے ہیں، ہم ملک کی بہتری کے لئے تو یہ سوچتے ہیں کہ ہر پانچ سال بعد انتخابات ہونے چاہیے، سربراہ کو بدلنا چاہیے، اقتدار کو موروثی نہیں ہونا چاہیے،نئے لوگوں کو موقع ملنا چاہیے لیکن دینی اداروں کی نسبت یہ سوچ ہمارے دماغوں میں کبھی نہیں آتی۔
عجیب بات ہے یا نہیں کہ پورے ملک کو چلانے کے لئے ہر پانچ سال بعد الیکشن ہوتے ہیں اور ایک نیا مدیر مل جاتاہے لیکن بعض دینی مدارس کو چلانے کے لئے الیکشن اس لئے بھی نہیں ہوتے چونکہ نیا مدیر ہی نہیں ملتا اور اگر نیا مدیر مل بھی جائے تو وہ پہلے والے مدیر کا بھائی، بیٹا، پوتا، بھتیجا ، بھانجا یا داماد وغیرہ ہی ہوتا ہے۔یعنی پہلے والے مدیر کے خاندان کے علاوہ کسی اور میں مدیریت کی صلاحیت ہی پیدا نہیں ہوتی۔
دین اس لئے بھی مظلوم ہے کہ دین کے نام پر کوئی جو چاہے کرے لوگ احتجاج کی سوچتے بھی نہیں، اگر ایک مسلک کے دینی مدارس میں جہاد کے نام پر دہشت گردی کی ٹریننگ دی جائے تو دیگر مسالک کے لوگ اور علما خاموش رہتے ہیں، اگر کسی نام نہاد مولوی کی گاڑی سے شراب کی بوتلیں پکڑی جائیں تو اس کے خلاف کہیں کوئی ریلی نہیں نکلتی، اگر کوئی مولوی صاحب طالبان کے کتے کو بھی شہید کہیں تو لوگ اس پر بھی خاموش رہتے ہیں، شاید لوگ اس خاموشی کو بھی عبادت سمجھتے ہیں۔ یہ مخلص اور جیدعلمائے کرام کی اولین ذمہ داری ہے کہ وہ دینی مدارس کا معیار طے کریں اور لوگوں میں دین کی نسبت درد کو بیدار کریں تا کہ وہ تحقیق سے ڈرنے کے بجائے خوب تحقیق کریں اور اس کے بعد حقیقی معنوں میں خدمت دین کرنے والےدینی مدارس کی مدد و معاونت کریں۔
تحریر۔۔۔نذر حافی
This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.
وحدت نیوز (اسلام آباد) پاکستان کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ ہے کہ یمن بارڈر پر پاک افواج کی تعیناتی کی خبروں میں صداقت نہیں ان خیالات کا اظہار وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز نے مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل سید ناصر شیرازی سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے کیا، تفصیلات کے مطابق سرتاج عزیز نے کہاکہ گلگت بلتستان کوپاکستان کا پانچواں صوبہ بنانے کا اصولی فیصلہ کرلیا گیا ہے جس کی منظوری وزیر اعظم پاکستان جلد دیں گےلیکن یمن بارڈر پر پاکستانی فوج کی تعیناتی کی خبر میں صداقت نہیں، ذرائع کے مطابق سید ناصر شیرزای نے سرتاج عزیز سے بات کرتے ہوئےپاکستان کی یمن جنگ میں شمولیت پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ پاکستان کے قومی مفاد میں نہیں ہے، پاکستان امت مسلمہ کا واحد ایٹمی طاقت کا حامل ملک ہے جسے مسلم ممالک میں مصالحت کارکا کردار اداکرنا چاہئے ناکہ فریق کا۔
وحدت نیوز(کراچی/ سکھر) مجلس وحدت مسلمین کے مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسدعباس نقوی نے قومی انتخابات 2018کی حکمت عملی کی ترتیب کے لئے صوبہ سندھ کے تین روزہ دورے کا آغاز کردیا، اپنے دورے کے پہلے مرحلے میں وہ کراچی پہنچے جہاں انہوں نے صوبائی سیکریٹری امور سیاسیات علی حسین نقوی سے ملاقات کی اور ممکنہ انتخابی حلقہ جات کی فہرست پر تبادلہ خیا ل کیا اس موقع پر کوآرڈینیٹر مرکزی پولیٹیکل سیل محسن شہریاربھی ان کے ہمراہ ہیں، سید اسد عباس نقوی نے کراچی میں قیام کے دوران صوبائی اور ڈویژنل رہنما علی حسین نقوی ، میثم رضا عابدی ودیگر کے ہمراہ ایم ڈبلیوایم ضلع ملیر کا دورہ کیا ، ضلعی سیکریٹریٹ میں منعقدہ ضلعی پولیٹیکل کونسل کے اجلاس میں خصوصی شرکت اورگذشتہ انتخابی نتائج اور حکمت عملی سمیت آمدہ انتخابی پالیسی پر تفصیلی بحث ومباحثہ اور مشاورت کی گئی، بعد ازاں دورہ سندھ کے دوسرے مرحلے میں سید عباس نقوی ، محسن شہریار اور سید علی حسین نقوی کے ہمراہ سکھر پہنچے جہاں انہوں نے ایم ڈبلیوایم سکھر ڈویژن اور لاڑکانہ ڈویژن کی پولیٹیکل کونسل کے مشترکہ اجلاس میں شرکت کی اور سندھ میں ایم ڈبلیوایم کی حکمت عملی کے حوالے سے دیگر مرکزی ، صوبائی اور ضلعی رہنماوں سے مشاورت کی ، اس موقع پر مرکزی ترجمان علامہ مختار امامی سمیت صوبائی سیکریٹری جنرل علامہ مقصودڈومکی ، سکھر اور لاڑکانہ ڈویژن کے تنظیمی عہدیدار بھی موجود تھے ۔
اس موقع پر گفتگو کرتے ہوئے اسد عباس نقوی کا کہنا تھاکہ مجلس وحدت مسلمین نے آئندہ قومی انتخابات کے حوالے سے تفصیلی مشاورت اور حکمت عملی کے تعین کا آغاز کردیا ہے ، ہمارا دورہ سندھ بھی اسی سلسلے کے ایک کڑی ہے ، پہلے مرحلےمیں ممکنہ انتخابی حلقوں کا تعین، بنیادی ضروریات اور تنظیمی ڈھانچے کی مضبوطی بنیادی اہداف ہیں انشاءاللہ جلد ایم ڈبلیوایم اپنے چنیدہ انتخابی حلقوں اور امیدواروں کا اعلان کرے گی۔ کسی بھی جماعت کے ساتھ الائنس یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا ،مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ انتخابی اتحاد کی خواہاں ہیں ، البتہ کسی بھی ممکنہ انتخابی اتحاد میں شمولیت کا فیصلہ پارٹی کے پالیسی ساز ادارے کریں گے۔
وحدت نیوز(کراچی) مجلس وحدت مسلمین پاکستان سندھ کے پولٹیکل سیکرٹری علی حسن نقوی نے کہا ہے کہ آپریشن ضرب عضب ہو یا ردالفساد مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے سیکیورٹی اداروں کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کی ضرورت ہے، ریاست کو آپریشن ردالفساد کے مطلوبہ نتائج کے حصول کیلئے افغان اور کشمیر پالیسی میں تبدیلی لانا ہوگی، ریاستی ادارے دہشتگرد گروہوں کو اثاثہ سمجھنا چھوڑ دیں، درپیش چیلنجز کا مقابلہ موجودہ حکمرانوں کے بس میں نہیں، ملک بچانے کیلئے پڑھے لکھے جوانوں پر مشتمل حکومت کا قیام ناگزیز ہے، کراچی میں عوام بنیادی ضروریات سے محروم ہیں، سندھ حکومت کراچی میں ترقیاتی کام مکمل کرے، روشنیوں کا شہر کراچی کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے صوبائی پولٹیکل کونسل کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ اجلاس میں کراچی ڈویژن کے پولٹیکل سیکرٹری تقی ظفر، ثمر عباس، حسن عباس و دیگر رہنما بھی موجود تھے۔
علی حسین نقوی نے کہا کہ ہمیں بلاخوف میدان میں حاضر رہنا ہے، ایک دوسرے سے مدد کریں، ملک کے تمام مکاتب فکر یک جان ہیں اور ملک کے دفاع کیلئے اپنی مزید لاکھوں جانوں کے نذرانے پیش کرنے کیلئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آپریشن ردالفساد کی بھرپور حمایت کا اعلان کرتے ہیں، افواج پاکستان سمیت تمام سکیورٹی اداروں کے شانہ بشانہ ہیں، حکومت نیشنل ایکشن پلان کے نام پر بے گناہ محب وطن شیعہ اور اہلسنت عوام کے بجائے مجرموں کے خلاف کارروائی کرے۔ انہوں نے مزید کہا کہ قائداعظم و علامہ اقبال کے پاکستان کی جدوجہد کرتے رہیں گے، سندھ بھر میں کالعدم جماعتوں کو حکمرانوں کی حمایت حاصل ہے، سانحہ درگاہ شہباز قلندرؒ میں ملوث دہشتگردوں کو فوری گرفتار کیا جائے، واقعہ میں ملوث سہولت کاروں کو منظر عام پر لایا جائے اور عبرت ناک سزا دی جائے۔
وحدت نیوز (پشاور) مجلس وحدت مسلمین صوبہ خیبر پختونخوا کے زیراہتمام دوروزہ تنظیمی وتربیتی ورکشاپ کا انعقادجامعہ شہید عارف حسین الحسینی ؒ میں کیا گیا جس میں صوبے کے مختلف اضلاع سے اراکین صوبائی وضلعی کابینہ نے شرکت کی، دو روزہ ورکشاپ کے مختلف سیشنز سے ایم ڈبلیوایم کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل علامہ سید احمد اقبال رضوی، مرکزی سیکریٹری امور سیاسیات سید اسد عبا س نقوی، مرکزی سیکریٹری روابط ملک اقرار حسین ، علامہ سید جواد ہادی، علامہ اصغر عسکری ، علامہ اقبال بہشتی ودیگر مقررین نے خطاب کیا،مقررین نے اپنی گفتگو میں شرکاءکو تقوی ٰ الہٰی کے حصول اور امور میں نظم کی پابندی کی تاکید کی اور کہا کہ ملت مظلوم پاکستان کو محرومیوں اور استحصال سے نجات دلانے کیلئے مجلس وحدت مسلمین کے کارکنان کی خودسازی بنیادی عنصرہے ، عوام سے مسلسل اور مضبوط رابطہ قومی مسائل کے حل اور تنظیمی ڈھانچے دونوں کی پائیداری کے لئے نا گزیر ہے ۔
وحدت نیوز (گلگت) سیکرٹری ہیلتھ کی من مانیوں کی وجہ سے آئی سی یو اپ گریڈیشن منصوبہ غیر ضروری تعطل کا شکار ہوچکا ہے۔یہ سلسلہ مزید جاری رہا تو اس منصوبے پر مختص بجٹ لیپس ہونے کا امکان ہے جس سے علاقے کے غریب عوام کو سخت مشکلات کا سامنا ہوگا جبکہ اس وقت سہولیات نہ ہونے کی وجہ کئی مریض بے اجل موت کے شکار ہورہے ہیں۔
مجلس وحدت مسلمین گلگت بلتستان کے ترجمان محمد الیاس صدیقی نے کہا ہے کہ وزیر اعلیٰ گلگت بلتستان اس صورت حال کا نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پر مذکورہ منصوبے پر بلاتاخیر عمل درآمد کروائیں۔عرصہ دراز سے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال کو نظر انداز کیا جارہا ہے،نہ تو جدید آلات کی تنصیب کی جارہی ہے اور نہ ہی ہسپتال کو اپ گریڈ کیا جارہا ہے جبکہ یہ ہسپتال گلگت کا قدیم ترین ہسپتال ہے اور تمام اضلاع کے مریض اسی ہسپتال کو ریفرہوتے ہیں۔آئی سی یو اور آپریشن تھیٹر کے ضروری آلات ناقابل استعمال ہوچکے ہیںباوجود اس کے ان ہی آلات سے گزارہ چلایا جارہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس تمام تر صورت حال کے پیش نظر آئی سی یو کو اپ گریڈ کرنے کیلئے بجٹ مختص کیا گیا ہے لیکن سیکرٹری ہیلتھ کی من مانی سے یہ منصوبہ غیر ضروری تعطل کا شکار ہے اور اس بات کا قوی امکان ہے کہ من پسند ٹھیکیدار کے ذریعے غیر معیاری آلات کی خریداری ہوگی ۔تجربہ کار ڈاکٹرز کو کمیٹی سے فارغ کردیا گیا ہے جس سے شکوک و شبہات بڑھ گئے ہیں اور علاقے کے غریب عوام کو سخت تشویش لاحق ہوگئی ہے۔انہوں نے کہا کہ سیکرٹری ہیلتھ کو من مانیوں کی کھلی چھوٹ دینی ہی ہے تو اسsے کسی اور ادارے کا سیکرٹری تعینات کیا جائے تاکہ غریب عوام کی قیمتی جانوں کا ضیاع کم از کم نہ ہو۔