The Latest
وحدت نیوز(اسلام آباد) علامہ راجہ ناصرعباس جعفری کی خصوصی ہدایت پر مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور وحدت لائرز فورم پاکستان کے مشترکہ وفد نے گزشتہ روز اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کا دورہ کیا اور اسلام آباد کچہری میں دہشت گردوں کی جانب سے شہید کئے جانے والے وکلاء اور ADJملک رفاقت اعوان کے اقرباء ، ساتھیوں اور لواحقین سے انکے چیمبرز میں جا کر تعزیت کی ۔وفد کی نمائندگی علامہ چوہدری ضیغم عباس ، علامہ علی اکبر کاظمی ، علامہ نعیم رضا جعفری، علامہ سید ساجد شیرازی ، سید سعید الحسن رضوی ، علامہ علی شیرانصاری ، جناب سیدین مرکزی سیکرٹری قانون MWM، سینئر قانون دان سید وسعت الحسن شاہ ایڈووکیٹ سپریم کورٹ آف پاکستان، سید اجمل حسین زیدی اور وحدت لائرز فورم کے اصغر علی مبارک ، مس طاہرہ بانو مبارک ، راجہ شیراز احمد جنجوعہ ایڈووکیٹ نے کی ، اس مو قع پر اسلام آباد بار ایسوسی ایشن کے نائب صدر شوکت خان نے مجلس وحدت مسلمین کے وفد کو خوش آمدید کہا اور F-8کچہری کے تمام متاثرہ مقامات کا دورہ کروایا۔ شہید جج رفاقت اعوان صاحب کی عدالت کے دورہ پر وفد نے خصوصی تعزیتی دعا بھی کی ۔ MWMکے وفد کو بتایا گیاکہ F-8کچہری میں دہشت گردی کے نتیجے میں 11شہادتیں جبکہ 30زخمی ہو ئے ہیں۔ وفد نے مختلف چیمبرز اور گیلانی ھال کے دورے کے دوران ہینڈ گرینیڈ اور فائرنگ سے ہونے والے نقصانات کا معائنہ کیا اور افسوس کا اظہار کیا کہ مٹھی بھر پاکستان اور اسلام دشمن عناصر پاکستان میں قانون کی بالا دستی کے حامی شخصیات کو نشانہ بنا رہی ہیں۔
MWMکے وفد نے شہید خاتون وکیل فضہ ملک کے علاوہ سینٹ کے چیئر مین اور معروف وکیل سید نیر حسین بخاری ، معروف قانون دان وسعت الحسن شاہ ایڈووکیٹ ، راؤ رشید اقبال، رفاقت اعوان، شہادت حسین شاہ اور دیگر شہید اور مجروح وکلاء کے دفاتر کا مشاہدہ کیا اس موقع پر اسلام آباد با ر ایسوسی ایشن نے میاں اشتیاق ھال میں خصوصی تعزیتی جلسہ کا انعقاد کیا گیا جس سے خطاب کرتے ہو ئے MWMکے رہنماؤں نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ وکلاء کو ٹھوس سکیورٹی مہیا کی جائے اور گورنمنٹ کی رٹ چیلنج کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نپٹا جائے۔
MWMکے سر براہ علامہ ناصر عباس جعفری کی نمائندگی کرتے ہو ئے علامہ ضیغم عباس نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین دکھ کی اس گھڑی میں وکلاء کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے اور وکلاء کے ساتھ آئندہ بھی ہر فورم پر اپنا کردر ادا کرتی رہے گی MWMکے رہنما علامہ امین شہیدی کے نمائندے علامہ سید علی اکبر کاظمی نے کہا دہشت گرد اس بزدلانہ کاروائی سے حق و انصاف کے راستے میں رکاوٹ کھڑی نہیں کر سکتے۔ شہدا نے اپنی جانیں دے کر اس مشن کوجاری رکھنے کا حوصلہ دیا ہے MWMشعبہ قانون کے سیدین زیدی نے کہا کہ حکومت وکلاء برادری کو مکمل تحفظ فراہم کرے۔ MWMاس واقع کی پرزور مذمت کرتی ہے اور دہشت گرد عناصر سے سختی سے نمٹا جائے۔
تعزیتی جلسہ سے اسلام آباد بار کے وسعت الحسن شاہ نے کہا کہ اسلام آباد کے وکلاء کے عزم و استقامت میں کو ئی کمی نہیں آئی۔ اس موقع پر آغانعیم رضا جعفری نے کہا کہ شہدا کے خون سے پاکستان میں امن کو دوام ملے گا انہوں نے کہا کہ حکومت پاکستان میں وکلاء برادری کو تحفظ فراہم کرنے کی پالیسی یقینی بائے ۔
تعزیتی جلسے سے علامہ سید ساجد شیرازی نے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ اسلام نے بے گناہ انسانوں کی ہلاکت کو ہمیشہ سے قابل مذمت قرار دیا ہے انہوں نے کہا کہ شہدا ء کے خون سے ہاتھ رنگنے والے کسی بھی مذہب میں انسان کہلانے کے لائق نہیں ہیں اس موقع پر علامی علی شیرازانصاری نے اپنے پر اثر خطاب میں کہا کہ پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کے نتیجے میں ہزاروں افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے جس سے ہماری مساجد، امام بارگاہیں ، گرجا گھر کچھ بھی محفوظ نہیں لہذا مذاکرات کی بجائے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس کاروائی کی جائے ۔
اسلام آباد ہائی کورٹ بار کی نمائندگی کرتے ہو ئے راجہ شیراز احمد جنجوعہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ F-8میں دہشت گردی کی بزدلانہ کاروائی ہمارے حوصلے کو کم نہیں کر سکتی۔ MWMکے وفد کو بار کے دورہ پر خراج تحسین پیش کر تے ہو ئے انہوں نے کہا کہ علماء کی سر پرستی میں ہم دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکیں گے۔شوکت خان نائب صدر نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ اسلام آباد بار کو سخت سے سخت سکیورٹی فراہم کی جائے آخر میں MWMلائرز فورم کے صدر اصغر علی مبارک نے شکریہ ادا کیا اورشہدا ء کی بلندی درجات اور زخمیوں کی صحت یابی اور ملک و قوم کی دہشت گردی کے ناسور سے نجات کے لئے دعا کروائی۔ راولپنڈی بار کی نمائندگی کرتے ہوئے اجمل زیدی ایڈووکیٹ نے کہا کہ راولپنڈی اور اسلام آباد بار جڑواں بارز ہیں اور اسلام آباد بار پر حملہ راولپنڈی بار پر حملہ اس دکھ کی گھڑی میں ہم ان کے ساتھ ہیں۔
وحدت نیوز(کراچی) کراچی آپریشن کے باوجود کالعدم طالبان اوراس کے ذیلی دہشت گرد گروہوں کی کارروائیوں اور دہشت گردوں سے مذاکرات اور شام پر امریکاو سعودی نواز پالیسی اپنانے پر حکومت کے خلاف جمعہ کو یوم احتجاج منانے کا اعلان کردیا۔ جمعیت علماء پاکستان کراچی کے صدر اور اہل سنت ایکشن کمیٹی کے سرپرست اعلیٰ علامہ قاضی احمد نورانی نے کراچی پریس کلب میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ دہشت گردی کے پے درپے واقعات حکومت کی ناکامی کا ثبوت ہیں۔ کراچی آپریشن کی کامیابی کا دعویٰ بھی مضحکہ خیزہے،عوام اہل سنت ریاست کے اہم ستونوں کوکمزورکرکے ملک کوتباہ کرنے کی سازش ناکام بنادیں گے، ایک طرف مذاکرات مذاکرات اور دوسری طرف مساجد،مدارس،خانقاہوں ،مزارات اور علماء ومشائخ پر حملے اور دھمکیاں ناقابل برداشت ہیں، ملک شام کے حوالے سے حکومت اپنی سابقہ پالیسی برقراررکھے،یہ وقت بیرونی معاملات میں الجھنے کے بجائے ملک سنبھالنے کاہے،رابطہ عالم اسلامی کے مردہ گھوڑے کوامریکا کے انجکشن لگاکرزندہ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے،اس موقع پر اہل سنت ایکشن کمیٹی کے چیئرمین نسیم احمدسحر،جماعت اہل سنت پاکستان کراچی کے نائب ناظم اعلیٰ علامہ محمدناصرخان قادری ترابی، اہل سنت ایکشن کمیٹی کے سینئروائس چیئرمین بابافخرالدین نورانی،جماعت اہل سنت بلدیہ ٹاؤن کے ناظم اعلیٰ علامہ غلام شبیرقادری، اہل سنت ایکشن کمیٹی کے وائس چیئرمین صاحبزادہ عارف رشیدفاروقی،شیخ عبدالوحیدیونس اور دیگر علماء ومشائخ اور عہدیداران موجودتھے۔
علامہ قاضی احمدنورانی نے حکومت کی جانب سے مذاکرات میں فوج کوشامل کرنے پرواشگاف الفاظ میں کہاکہ جنگجوؤں سے حکومت اورفوج نے دسیوں بارمذاکرات کئے لیکن دس سال کے عرصے میں انسانی شکل میں ان بھیڑیوں نے ریاست کے اندرریاست قائم کرکے حکومتی رٹ کوہمیشہ چیلنج کیا۔جاہلانہ نظریات کواسلام قراردیااور اختلاف کرنے والوں کو بے دریغ درندگی کانشانہ بنایامزارات پر دھماکے کئے،مساجداورمدارس بھی ان کے ظلم کانشانہ بنے ،علماء اور مشائخ کوقتل کیااور کراچی میں جاری آپریشن کے باوجودان ظالمان کی دھمکیاں اور بھتہ خوری جاری ہے۔ اب محترم وزیراعظم نوازشریف کو فیصلہ کرناہوگاکہ وطن عزیز کوبچاناہے یااپنی جلاوطنی کے دوران میزبانی کرنے والوں کے اشارے پرملکی امن وسلامتی کو داؤ پرلگاناہے ۔
انہوں نے شام کے حوالے سے کہاکہ مناسب یہ ہوگاکہ شام کے حوالے سے حکومت اپنی سابقہ پالیسی برقراررکھے ،رابطہ عالم اسلامی ایک مخصوص نظریہ رکھنے والوں کاگروپ بن گئی ہے،حالیہ مکہ کانفرنس میں ملک کے سواداعظم اہل سنت کی کوئی نمائندگی نہ تھی۔امریکاخطرناک چال چل کر شام میں موجودحماس کے دفاتر ودیگر مراکزتباہ کرکے اسرائیل کے لئے خطرات کوکم سے کم کرناچاہتاہے،اگرامریکہ کوشام میں بقول اس کے آمرانہ حکومت سے اختلاف ہے تواس نے آخر مصر میں جمہوریت کوکیوں پنپنے کاموقع نہ دیا،امریکاکی ہر کارروائی کامقصد صحیح العقیدہ مسلمانوں اور مسلمانوں کی جان ومال کاتحفظ کرنے والوں کونقصان پہنچاناہوتاہے ۔
علامہ قاضی احمدنورانی اور ان کے ساتھیوں نے مزیدکہاکہ شہرکراچی باالخصوص بلدیہ ٹاؤن ،اورنگی ٹاؤن اور منگھوپیر مسلسل مذہبی دہشتگردی کی زد میں ہیں، جامع مسجد خضرأ بلدیہ ٹاؤن پاورہاؤس کے امام قاری لیاقت کو شہید کرنے کے بعد انتظامیہ کی نگاہوں سے اوجھل دہشتگردوں نے علماء ومشائخ کو دھمکی آمیزخطوط لکھے ہیں،سانحۂ بلدیہ ٹاؤن جہاں ذکرالٰہی کرنے والوں کوشہید کیاگیاان کے قاتل ابھی تک گرفتارنہیں ہوئے ۔انہوں نے مطالبہ کیاکہ کراچی پولیس کا سربراہ کسی اہل اور نڈرافسر کو بنایا جائے جودہشتگردوں سے مرعوب ہونے کے بجائے آہنی ہاتھوں سے نمٹے۔انہوں نے کہاکہ ہم جمعیت علماء پاکستان کے پلیٹ فارم سے 29مارچ کونشترپارک میں عوام اہلسنت کومجتمع کرکے ایک بارپھر ثابت کردیں گے کہ شہر کراچی درودوسلام پڑھنے والے عاشقان رسولﷺ کاشہر ہے ،یہ اولیاء کاملین کے ماننے والوں کاشہر ہے یہاں خودساختہ اسلام اور دہشتگردی ہرگزنہیں چلے گی۔
وحدت نیوز(کراچی) تنظیم المساجد اہلسنت پاکستان کے سربراہ مفتی عابد مبارک قادری کو جان سے مارنے کی دھمکی آمیز خط موصول ہوا۔ اطلاعات کے مطابق گذشتہ رات کے کسی پہر شہید ڈاکٹر قاری لیاقت علی خان کی مسجد کے وضو خانے میں دھمکی آمیز خط چسپاں کیا گیا، جس میں مفتی عابد مبارک قادری کو مسجد سمیت شہید کرنے اور مرحوم قاری لیاقت علی کے رشتہ دار اور قاری صاحب کی مسجد کے امام مولانا سید قاسم شاہ بخاری کی بہن کو اغواء کرنے کی دھمکی دی گئی۔ واقعہ کی اطلاع متعلقہ تھانہ اور ایس پی بلدیہ سمیت رینجرز کے افسران کو دے دی گئی ہے۔ علماء اہلسنت کا ایک اہم اجلاس تنظیم المساجد اہلسنت پاکستان کے مرکز میں ہوا، جس میں کالعدم تنظیم کی جانب سے مفتی عابد مبارک المدنی کو دی جانے والی اس دھمکی کا سخت نوٹس لیا گیا اور اس واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی۔
علماء اہلسنت نے حکومت اور انتظامیہ کو خبردار کیا کہ اگر قاری لیاقت علی کے قاتلوں کو گرفتار کر لیا جاتا تو شاید ان شرپسندوں کو روکا جا سکتا تھا۔ علماء اہلسنت نے ملک بھر کی عوام اہلسنت کا واضح اور درست مؤقف دنیا بھر میں پیش کرنے اور پاکستان و آئین پاکستان اور اپنے فوجی جوانوں اور پولیس اہلکاروں کی مکمل حمایت کا اعلان کرنے پر مفتی عابد مبارک المدنی کی حمایت کا اعلان کیا۔ علماء اہلسنت نے حکومت اور انتظامیہ سے مساجد و مدارس اور مزارات اولیاء کرام سمیت علماء اہلسنت کو مکمل سکیورٹی دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اجلاس میں مفتی رفیع عثمانی، مولانا حسین لاکھانی، مفتی وسیم اختر المدنی، مفتی محمد احسن نوید، مفتی ایاز سعیدی، علامہ عمران قادری سمیت دیگر علماء اہلسنت نے شرکت کی۔
وحدت نیوز(مظفرآباد) مجلس وحدتِ مسلمین آزادکشمیر کے وفد کی سابق وزیر اعظم ، قائد حزب اختلاف ومسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدرراجہ فارو ق حیدر سے ملاقات کی، اتحاد بین المسلمین کے سلسلہ میں کئے گئے اقدامات سے آگاہ کیا گیا۔وفد کی سربراہی مجلس وحدتِ مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری سیاسیات سید تصوعباس موسوی نے کی، مجلس وحدت مسلمین نے فاروق حیدر کو حالیہ ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدوار کی کامیابی پر مبارکباد پیش کی۔دریں اثنا ء مجلس وحدتِ مسلمین آزادکشمیرکے رہنماؤں نے ممبر اسمبلی برسٹرافتخار گیلانی اور نو منتخب ممبر اسمبلی فاروق طاہر سے بھی ملاقات کی اور انہیں بھی مبارکباد پیش کی۔مسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدرراجہ فارو ق حیدرنے پاکستان اور آزادکشمیر میں بین المذاہب ہم آہنگی اور بین المسالک وحدت کیلئے مجلس وحدتِ مسلمین کے کردار کو سراہا،مجلس وحدتِ مسلمین کے وفد میں محسن رضا سبزواری ایڈووکیٹ،مولانا حمید حسین نقوی، ڈاکٹرسخاوت حسین کاظمی،سید عارف شاہ بخاری، ذیشان کاظمی اور دیگر شامل تھے۔
مجلس وحدت مسلمین کے رہنماؤں نے کہا کہ 21ربیع الاول 23جنوری کودربار عالیہ سائیں سہیلی سرکار مظفرآبادمیں میلادِ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عنوان سے عظیم الشان میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا گیا، جس میں مجلس وحدتِ مسلمین پاکستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ محمد امین شہیدی ، سنی اتحاد کونسل پاکستان کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا، مفتی کفایت نقوی، صاحبزادہ سلیم چشتیسمیت پاکستان بھر کے معروف نعت خواں، شیعہ سنی عاشکان رسول اقدس بھرپور انداز میں شرکت کرکے کے اتحاد ووحدت کا عملی مظاہرہ کیا۔
قائد حذب اختلاف راجہ فارو ق حیدر نے مجلس وحدتِ مسلمین کے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مجلس وحدتِ مسلمین پاکستان کے قائد جناب علامہ راجہ ناصر عباس کے اقدامات و کاوشیں قابل تحسین ہیں،مسلم لیگ ن آزادکشمیر ،مجلس وحدت مسلمین کے کردار و کارکردگی کو قدر و احترام کی نگاہ سے دیکھتی ہے۔ مجلس وحدتِ مسلمین کی بین المسلمین وحدت امن و بھائی چارے کے ایجنڈے پر مسلم لیگ ن آزادکشمیر مجلس وحدت مسلمین کے ساتھ ہے۔ آزادکشمیر لسانی اورمذہبی فسادات سے پاک پرامن خطہ ہے۔تمام مسالک کے درمیان رواداری اور اتحاد قابل تعریف ہے ۔علماء کرام وحدت برقرار رکھنے کیلئے اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ ماہ محرم الحرام آزادخطہ کے علماء و عوام نے بھرپور ملی وحدت، احترامِ اہل بیت کیساتھ پرامن طریقے سے منایا گیا۔ماہ ربیع الاول بھی تما م مسالک کے علماء و عوام رسول خداؐ سے عشق و محبت کا اظہار کرتے ہوئے مکمل اتحاد و یگانگت کیساتھ منایا گیا۔
مجلس وحدتِ مسلمین آزادکشمیر کے سیکرٹری سیاسیات سید تصوعباس موسوی نے قائد حذب اختلاف ومسلم لیگ ن آزادکشمیر کے صدرراجہ فارو ق حیدرسے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ مجلس وحدتِ مسلمین نے پاکستان اور آزادکشمیر میں اتحاد بین المسلمین کیلئے بھرپورجدوجہد کررہی ہے اس جدودجہد کے دوران قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ملکی سلامتی اور امن کیلئے ہر قربانی کیلئے تیارہیں انہوں نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین ملک میں امن کا قیام انسانی بنیادوں پر کے فارمولے پر یقین رکھتی ہے اس سلسلہ میں 5 جنوری کو اسلام آباد میں قومی امن کنونشن منعقد کیا گیاجس میں شیعہ سنی ، ہندو ،سکھ،عیسائی اور دیگر مسالک ومذاہب کے عوام ملکی سلامتی کیلئے جانیں قربان کرنے والے شہداء کے لواحقین نے بھرپورشرکت کی اور باہمی اتحاد و اخوت کے عہد کی تجدیدکی۔
وحدت نیوز(بلتستان) مجلس وحدت مسلمین پاکستان بلتستان ڈویژن کے زیراہتمام ایک تعزیتی اجلاس کا انعقاد ڈپٹی سیکرٹری جنرل ایم ڈبلیو ایم بلتستان کے زیرصدارت ہوا۔ اجلاس میں مجلس وحدت مسلمین پاکستان گلگت بلتستان کے صوبائی سیکرٹری فلاح و بہبود، بلتستان کی معروف دینی درسگاہ جامعۃ النجف اسکردو کے وائس پرنسپل حجتہ الاسلام شیخ احمد علی نوری اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان بلتستان ڈویژن کے سابق ڈویژنل صدر و چیئرمین الہٰدی فاونڈیشن علی احمد نوری کی والدہ ماجدہ گذشتہ دنوں علالت کے باعث داعی اجل کو لبیک کہہ گئی۔مرحومہ کی رحلت پر گہرے دکھ کا اظہار کیا۔ اجلاس میں مرحومہ کے لیے مغفرت اور لواحقین کے لیے صبر کی دعا کی گئی۔ اجلاس کے آخر میں مرحومہ کے ایصال ثواب کے لیے فاتحہ خوانی بھی کی گئی۔مرحومہ کو اسکردو الڈینگ پکورا میں سپرد خاک کیا گیا۔ انکی نماز جنازہ ایم ڈبلیو ایم پاکستان گلگت بلتستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل علامہ آغا مظاہر حسین موسوی کی اقتدا میں ادا کی گئی۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) ایم ڈبلیوایم بلوچستان کے سیکرٹری جنرل علامہ مقصود علی ڈومکی کا اسلام ٹائمز کے ساتھ انٹرویو میں کہنا تھا کہ پاک فوج ایک غیرت مند سپاہ ہے جسے عوام کی حمایت حاصل ہے، یہ کوئی کرائے کے قاتل نہیں ہیں، جنہیں جہاں ہمارے حکمران چاہیں معصوم لوگوں کے قتل عام کے لئے بھیج دیں، پاکستانی فوج کے کمانڈر اور فوج کے ذمہ داران کو اس سازش کا ادراک کرنا چاہیئے۔ اسکے دو بہت بڑے مضر اثرات مرتب ہوں گے، ایک عالمی سطح پر امت مسلمہ کی بدنامی ہوگی، دوسرا یہ تاثر جائے گا کہ پاکستانی فوج کرائے کے قاتلوں کا کردار ادا کر رہی ہے۔ پاکستانی ریاست مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کے لئے اسلحہ دے رہی ہے اور پاکستان کے اندر بھی پاک فوج کی بدنامی ہوگی۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری کردہ بیان کے مطابق رُکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کا حصول ہرپاکستانی کا قانونی حق ہے۔ لیکن بلوچستان میں ہزارہ اور پشتون اقوام کے لئے اس کا حصول ناممکن بنادیاگیاہے۔ اور گزشتہ کئی سالوں سے پاسپورٹ آفس رشوت خوری اوربدعنوانی کا گڑھ بن چکا ہے۔ اِس گھناؤنے کاروبارمیں پاسپورٹ آفس کاتمام عملہ برابرکاشریک ہے۔
اُن کا کہناتھاکہ پاسپورٹ آفس کے عملے اورکمیشن خورمافیاکی ملی بھگت سے معصوم پاکستانیوں خصوصاً ہزارہ اورپشتونوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہاہے۔ بدعنوانی اوررشوت ستانی کے خلاف کاروائی کرنے والے وفاقی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔پاسپورٹ آفس میں درخواست گزاروں کو دانستہ طورپرتنگ کیاجاتاہے۔ اوران سے ایسی دستاویزات طلب کی جاتی ہیں جن کا پاسپورٹ کے حصول سے کوئی تعلق بھی نہیں۔دستاویزات مکمل ہونے کے باوجودفارموں کو پولیس کی تصدیق کے لئے بھیج دیاجاتاہے۔انہوں نے کہاکہ پنجاب میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے صرف قومی شناختی کارڈ دکھاناہی کافی ہوتاہے جبکہ کوئٹہ میں ہزارہ پشتون دشمنی اور رشوت خوری کے دروازے کھلے رکھنے کے لئے پاسپورٹ آفس میں من مانی خودساختہ قوانین متعارف کئے جاتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پاسپورٹ کے حصول کے لئے درخواست گزاروں کو پاسپورٹ آفس کے مہینوں چکرکاٹنے پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہاکہ پاکستان میں بسنے والے دیگراقوام کی طرح ہزارہ اورپشتون اقوام بھی پاکستانی ہیں اورپاکستان کی ترقی و خوشحالی میں دیگراقوام کی طرح ہزارہ پشتون اقوام کی بھی بے پناہ قربانیاں ہیں۔انہوں نے وزارت داخلہ سے مطالبہ کیاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کے حصول کوآسان بنانے کے لئے بلوچستان میں بھی وہی قوانین لاگوکیئے جائیں جوپنجاب کے عوام کے لئے ہیں۔ انہوں نے مزیدکہاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈکے فارم کوپولیس کے پاس تصدیق کے لئے نہ بھیجاجائے بلکہ اس کے لئے عوامی نمائندوں یاکونسلروں سے تصدیق کو ہی کافی سمجھاجائے۔آغارضاکاکہناتھاکہ پاسپورٹ اورشناختی کارڈ کے حصول کے لئے وضع کئے گئے خودساختہ قوانین کواگرختم نہ کیاگیاتووزارت داخلہ کے خلاف سپریم کورٹ میں کیس دائرکیاجائے گااوروہاں کرپشن کے ثبوت فراہم کئے جائیں گے۔
وحدت نیوز(کوئٹہ) مجلس وحدت مسلمین کوئٹہ ڈویژن سے جاری کردہ بیان کے مطابق رُکن صوبائی اسمبلی آغا محمد رضا نے گزشتہ روزاسلام آبادکچہری میں خودکُش حملوں کی شدیدالفاظ میں مذمت کرتے ہوئے واقعہ کوبزدلانہ کاروائی قراردیتے ہوئے کہاکہ سابقہ اورموجودہ حکومت کی نرمی اوردہشت گردوں کے خلاف بروقت کاروائی نہ کرنے کی وجہ سے آج دہشت گردطاقتورہوکرملک بھرمیں اس قدرپھیل چکے ہیں کہ اب اسلام آباد بھی دہشت گردوں کی کاروائیوں سے محفوظ نہیں رہاہے۔اُن کا کہناتھا کہ حکومت اورطالبان کے مابین پردے کے پیچھے کیاباتیں ہورہی ہیں قوم کو اس سے فوری آگاہ کیاجائے۔ اسلام آبادکے دلخراش واقعہ کے بعدطالبان کی طرف سے ایک ماہ کے لئے یکطرفہ جنگ بندی کااعلان دھوکہ کے سواکچھ نہیں۔اگرطالبان اپنی نیت میں صاف ہوتے تووہ جنگ بندی کے لئے ایک ماہ کی مدت مقررہی نہ کرتے۔طالبان کی طرف سے ایک ماہ کی جنگ بندی کی پیشکش مزید خدشات کو جنم دے رہے ہیں۔
انہوں نے حکومت سے سوال کیاکہ طالبان کی طرف سے جنگ بندی کے باوجوددہشت گردگروہوں کی جانب سے جاری حملوں کوروکنااگرطالبان کے بس کی بات نہیں توحکومت پھرطالبان سے کیوں مذاکرات کررہی ہے؟انہوں نے کہاکہ عدالتوں پرحملہ ملک میں قانون کی حکمرانی کوچیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ طالبان اوران کے حامی پاکستانی فوج کومذاکرات اور جنگ بندی کے نام پر تھکادیناچاہتی ہیں۔ اورطالبان کوجیسے ہی کوئی کمزورلمحہ میسرآتاہے وہ کسی بھی دہشت گردانہ کاروائی سے دریغ نہیں کرتے۔اوراگلے روز میڈیاپرواقعہ سے اظہارلاتعلقی بھی کرتے ہیں۔ طالبان دہشت گردوں کوصرف اُن سیاسی اورمذہبی حلقوں کی وجہ سے ملک میں اپنی طاقت کویکجاکرنے کاموقع مل رہاہے جومذاکرات کے نام پراِن دہشت گردوں کی میڈیامیں برملاحمایت کررہے ہیں۔طالبان کی طرف سے پاکستان کے معصوم عوام ،میڈیاکے افراد، پولیس، افواج پاکستان اوراب عدلیہ پرحملے کے بعدوقت آچکاہے کہ اِن کے خلاف آپریشن کیاجائے۔
وحدت نیوز(آرٹیکل) یہ 7مارچ 1995ء کی ایک المناک صبح تھی،تقریباً پونے آٹھ بجے ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی رہائش گاہ حسین اسٹریٹ بھلا اسٹاپ سے ہسپتال جانے کیلئے نکلے۔عید کے باعث آپ نے اپنے حفاظتی عملہ کو چٹھیاں دے دی تھیں فقط آغا تقی جو لاہور کے نواحی علاقہ امامیہ کالونی سے تعلق رکھتے تھے آپ کے ہمراہ تھے اور ہمیشہ کی طرح فرنٹ سیٹ پر الرٹ بیٹھے تھے، ڈاکٹر محمد علی نقوی اپنی منی پجارو جیپ جس کا نمبرQAD 3428 سلور کلر کو خود ڈرائیو کر رہے تھے،ان دنوں یتیم خانہ چوک سے ساہیوال کیلئے ٹویؤٹا ہائی ایس گاڑیاں نکلتی تھیں جس کی وجہ سے لاہور کا یہ مصروف ترین چوک ہمیشہ ٹریفک کے مسائل سے دوچار رہتا تھا۔چوک سے تھوڑپہلے ویگن اسٹینڈ کے پاس الٹے ہاتھ پر گلی مڑتی ہے اور گلی کے عین نکڑ پر اخبارات اور کتابوں کا اسٹال لگا ہوتا تھا۔گھر سے یہاں تک کا فاصلہ بمشکل دو کلومیٹر ہو گا،آپ کی گاڑی جیسے ہی ا س ویگن اسٹینڈ کے سامنے پہنچی بک اسٹال کے پاس کھڑے دہشت گردوں نے سامنے آکر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی بعض عینی شاہدین کے مطابق ان کی تعداد پانچ تھی اور یہ دو طرف سے گاڑی پر فائرنگ کر رہے تھے جبکہ ان میں سے دو دہشت گرد اندھا دھند ادھر ادھر بھی فائرنگ کر رہے تھے تاکہ موقع پر موجود لوگ ان کی دہشت اور رعب میں آ جائیں کلاشنکوفوں سے کی جانے والی اس اندھا دھند فائرنگ سے ڈاکٹر محمد علی نقوی اور ان کے محافظ آغا تقی حیدر سنبھل ہی نہ پائے ،اس کے باوجود دہشت گردوں کا ایک ساتھی گاڑی کے بونٹ پر چڑھ کر بھی نشانہ لے رہا تھا۔جب دہشت گردوں کو یقین ہو گیا تو وہ فائرنگ کرتے ہوئے بڑے آرام سے فرار کر گئے اس وقت پنجاب میں میاں منظو احمد وٹو وزیر اعلیٰ تھے۔
لاہور کے مصروف ترین چوک میں ہونے والی اس اندوہناک واردات کی خبر جنگل کی آگ کی طرح ملک بھر میں پھیل گئی پرائیویٹ ٹی وی چینلزکا زمانہ نہ ہونے کے باوجود ڈاکٹر محمد علی نقوی کی شہادت کی خبر لمحوں میں ہر سو پھیل چکی تھی،قائد شہید علامہ عارف الحسینی کی شہادت کے بعد یہ ملت تشیع پاکستان کیلئے سب سے بڑانقصان اور صدمہ تھا جس کا اندازہ آج بھی اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی شدت سے محسوس کیا جاتا ہے۔ملت تشیع پاکستان کی اکثریت کو ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے بارے ان کی شہادت کے بعد علم ہوا کہ ان کی ملت کا ایک روشن ،چمکتا ستارہ یتیم خانہ چوک میں ڈوب گیا ۔ انہوں نے ایک گمنام مجاھد کی طرح زندگی گذاری ان کی فکری پرواز بہت بلند اور مقام و مرتبہ ہر ایک سے اعلیٰ تھا مگر انہوں نے کبھی روایتی قائدانہ انداز اختیار نہ کیا اور نمود و نمائش،ذاتی تشہیر سے میلوں دور رہتے شائد ان کا تقویٰ و خلوص ہی تھا جس کے باعث وہ پاکستان کے ہر شیعہ نوجوان کے دل میں گھر کر چکے تھے،ملت کے سیماب صفت نوجوان ہمیشہ ان کے حکم کے منتظر رہتے تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے ان گنت پہلو اٹھارہ برس گذر جانے کے بعد بھی لوگوں کے سامنے نہیں آ سکے جس شخص نے اپنی مکمل زندگی تنظیمی و قومی تشکیلات و تحریکات میں گذار دی ان کی حیات و کارہائے نمایاں پر کئی کتب لکھی جاسکتی تھیں مگر آج تک صر ف دو کتب سامنے آئیں ہیں ایک ان کی زندگی کے حوالے سے اور دوسری ان پر لکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے۔اول الذکر سفیر انقلاب محترم تسلیم رضا خان اور آخرالذکر پاسبان انقلاب برادر محترم ڈاکٹر سید راشد عباس نقوی نے تدوین کی ہے۔ہماری بد قسمتی ہے کہ پاکستان کی اس قدر بڑی شخصیت جس نے مسلسل 30برس قومی و اجتماعی زندگی میں گذار دیئے اور اپنا سب کچھ تنظیموں و تحریکوں کو دیاہم اس کے آثار ہی جمع نہیں کر سکے ۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی شخصیت کے تمام پہلو، ہر لحاظ سے ملت کے نوجوانوں کیلئے مشعل رہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی زندگی کا صرف ایک کردار ہی ہمارے سامنے ہو تو ان کو نسلوں کا آئیڈیل سمجھنے کیلئے کافی ہے اور وہ ہے امام خمینی کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حج پر براء ت از مشرکین کیلئے خود کو پیش کرنا ،یہ کس قدر خطرناک کام تھا اس کا اندازہ شائد ہم لوگ کبھی بھی نہ لگا سکیں اس لیئے کہ وہ وقت گذر چکا ہے جس میں یہ فرض نبھایا گیا تھا۔وہ واقعا ایثار و قربانی کا پیکر تھے ،عملی کردار ادا کرنے والے تھے ،آج کے نوجوانوں میں اگر کہیں جذبہ ایثار و قربانی دکھائی دیتا ہے توان کا آئیڈیل ڈاکٹر شہید محمد علی نقوی کی ذات ہی توہے۔
ان کی برسی کے موقع پر اگر ہم اختصار کے ساتھ بھی ان کی زندگی کے کچھ پہلوؤں پر روشنی ڈالنا چاہیں تو کئی صفحات بھر جائیں ،ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدایک معروف عالم دین مولانا امیر حسین نقوی کے فرزند تھے جن کی زندگی مکتب تشیع کی تبلیغ و دفاع میں گذری تھی جبکہ محسن ملت جناب قبلہ سید صفدر حسین نجفی ان کے بے حد قریبی رشتہ دار تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کی دینی تربیت میں قبلہ صفدر نجفی صاحب کا کردار کلیدی حیثیت رکھتا تھا۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید بھی انہیں بے حد احترام دیتے تھے اور ملک کے مختلف شہروں میں ہونے والی نوجوانوں کی نشستوں او ر تربیتی پروگراموں میں ان سے بھرپور رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید دیگر کئی ایک علما ء جن میں مولانا قبلہ مرتضیٰ حسین صدر الافاضل ،جناب مفتی جعفر حسین قبلہ،اور آغا سید علی الموسوی بھی شامل ہیں سے بہت زیادہ مربوط رہے ،ان میں بھی آغا سید علی الموسوی کہ جنہوں نے ساری زندگی امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن پاکستان کے ساتھ ایک مستقل رکن نظارت اور بانی رہنما کے طور پر گذار دی سے بے حد محبت و عقیدت رکھتے تھے آغا سید علی الموسوی بھی ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو علما ء کی طرح احترام دیتے تھے وہ ڈاکٹر صاحب کی شخصیت کو صحیح معنوں میں پہچانتے تھے۔ڈاکٹر شہید بھی دیگر نوجوانوں کی طرح آغا علی الموسوی کے انداز خطاب و گفتگو بالخصوص نوجوانوں کے سالانہ کنونشن میں نئے مرکزی صدر کے اعلان کی تقریب کو بے حد دلچسپی سے ملاحظہ فرماتے تھے۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کو حضرت امام خمینی کی ذات سے عشق تھا اور وہ ان ہی کے عشق میں قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کی ذات میں بھی کھو چکے تھے۔قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی کو اگرپاکستان میں کسی سے اپنا درد بیان کرنا ہوتا تھا تو ان کا اعتماد شہید ڈاکٹر پر ہی تھا۔حقیقت میں یہ دونوں شخصیات امام راحل خمینی بت شکن کی عاشق تھیں جنہوں نے وقت کے طاغوت کو للکارا ہوا تھا اور پاکستان کے ہمسائے میں میں اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کا خاتمہ کر کے اسلامی انقلاب برپا کر دیا تھاپاکستان کی یہ دونوں عظیم شخصیات اس مادر وطن میں دیگر امت مسلمہ کے ساتھ ملکر امام خمینی کے پیغامِ انقلاب کو راسخ کرنے کیلئے کوشاں تھیں تاکہ اس وطن کے مظلوم عوام بھی استعمار و طاغوت کے منحوص خونی پنجوں سے آزادی کی فضا میں سانس لے سکیں۔امت کو یکجا و متحد کرنے کیلئے انہوں نے اتحاد بین المسلمین کی تحریک چلا رکھی تھی اور اس کے اثرات بے حد مثبت دیکھے جا رہے تھے دشمنان امت مسلمہ اتحاد کی اس فضا سے خاصا پریشان تھا لہذا اس نے اپنے پالتو نمک خواروں کے ذریعے اس کے مخالف فرقہ وارانہ فضا کو ایجاد کرنے کی منصوبہ بندی کی اور ایسے گروہ تشکیل دیئے جو پہلے سے افغان جہاد کے حوالے سے ان کے رابطے میں تھے۔اصل میں اس کا مقصد پاکستان کی سرزمین سے انقلاب کی پھوٹی کرنوں کا راستہ روکنا تھا۔آج جو کچھ ہماری سوسائٹی اور ملک و معاشرہ میں دکھائی دے رہا ہے یہ سب اسی کا حصہ ہے ۔ فرقہ واریت کا جن آج طاغوت کا بہت بڑا ہتھیار بن چکا ہے جسے جب چاہتے ہیں باہر نکال کر مطلوبہ نتائج حاصل کر لیتے ہیں ۔ یہ بات بھی اپنی جگہ ایک حقیقت ہے کہ ڈاکٹر شہید آخری ایام زندگی سے پہلے ہی اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ ان کی تشکیل کردہ نہضت کا انداز ،طریقہ ء کار اور نام کسی بھی طرح سے ملکی حالات اور ماحول کے حوالے سے آئیڈیل نہیں بلکہ اس کے الٹ ہے اور باعث ضرر ہے جس کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ،اس کا اظہار انہوں نے کئی ایک دوستوں کے سامنے کیا اور اپنے طور پر اس کی کوشش بھی کی مگر اس وقت تک شائد حالات ان کی گرفت سے باہر ہو چکے تھے نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے کہ ہم استعماری و طاغوتی جال میں بری طرح جکڑے دکھائی دیتے ہیں ۔
جیسا کہ ہم نے عرض کیا ڈاکٹر محمد علی نقوی شہیدکی زندگی کا ہر پہلو ہمارے لیئے نمونہ ء عمل اور رہنمائی کا ذریعہ ہے ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کا اخلاق،کردار،عمل،میل جول،برتاؤ،اٹھنا بیٹھنا،فلاحی امور کا نیٹ ورک،خدمت خلق سے سرشار معمولات،تعلیمی ترقی و پیشرفت کیلئے اسکول سسٹم کا نیٹ ورک،تنظیمی و تربیتی نشستوں کا احیاء،نوجوانوں کی مختلف میدانوں میں مکمل مدد و تعاون،ذاتی و نجی معاملات میں لوگوں کی درست رہنمائی ،دختران ملت کی فعالیت و قومی اجتماعی امور میں ان کی شرکت،ملت کے دفاع و بقا کیلئے خدمات،الغرض ہر حوالے سے ان کی خدمات قابل تقلید نمونہ کی حیثیت رکھتی ہیں ۔ڈاکٹر شہید نے اپنی زندگی میں امداد فاؤنڈیشن کے نام سے بھی ایک ادارہ بنایا تھا جو مستحق اور ضرورت مند لوگوں کی مدد کرتا تھااس کے تحت قوم کی بچیوں کی شادی اخراجات سے لیکر اسیران ملت و متاثرہ خانوادوں کی امداد و بحالی کا سلسلہ جاری تھااور کئی ایک لوگوں کو چھوٹے پیمانے پر کاروبار کروا کر ان کی مدد کی گئی ۔آج یہ ادارہ یا اس جیسا کوئی ادارہ کہیں نظر نہیں آتااسی طرح ڈاکٹر شہید نے ایک اسکول سسٹم المصطفےٰ اسکول کے نام سے قائم کیا جس کی کئی ایک برانچز ملک کے کئی ایک شہروں میں قائم کی گئی تھیں مگر صد افسوس آج یہ اسکول سسٹم بھی بند کر دیا گیا ہے۔بلتستان کی ایک شخصیت کے ساتھ ملکر انہوں نے ایک ادارہ بلتی طالبعلموں کی فلاح و بہبود کیلئے قائم کیا جس کا نامbestرکھا تھا۔
ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید زندگی میں ایک ایسے محور کی حیثیت رکھتے تھے جس کے گرد ملک بھر کے تنظیمی نوجوان کھنچے چلے آتےتھے ان کی مقناطیسی شخصیت کی کشش سے ہر کوئی ان سے مربوط رہتا تھااور ڈاکٹر محمد علی نقوی شہید کا یہ کمال تھا کہ وہ ہر ایک سے اس کی صلاحیتوں کے مطابق کام لیتے تھے کسی کو بیکار نہ رہنے دیتے تھا گویا ان کی ذات کی شکل میں تنظیمی مسؤلین و سابقین کا ایک نیٹ ورک موجود تھا ان کی شہادت کے بعد ہم اس مقناطیسیت سے محروم ہو گئے اور سابقین کا کوئی نیٹ ورک بھی قائم نہ کر سکے نہ ہی کوئی ایسی شخصیت ابھر کر سامنے آ سکی جس پر شہید ڈاکٹر کی طرح سب احباب و دوست اعتماد کرتے اور وہ شخصیت بھی اپنے مستقبل کی قربانی دے کر قومی اجتماعی جدوجہد اور اسلامی تحریک کو مضبوط کرتی۔وقت آج بھی ہمیں پکار رہا ہے ۔آج بھی کام کرنے کی شدید ضرورت ہے آج بھی سعادت و خوشبختی کا اور شہدا ء کا راستہ منتظر ہے کہ کوئی محمد علی نقوی بن کر آئے اور چھا جائے۔آخر میں تعزیت و تسلیت عرض کرتے ہوئے یہی کہوں گا کہ
میرے خیال نے جتنے بھی لفظ سوچے ہیں
تیرے مقام ،تیری عظمتوں سے چھوٹے ہیں
تحریر:ارشاد حسین ناصر
وحدت نیوز(آرٹیکل) کہتے ہیں جسمِ انسانی کے کسی حصیّ میں چوٹ لگ جائے تو پورا جسم اس تکلیف کو محسوس کرتا ہے.ہماری شیعہ قوم کی مثال بھی جسمِ انسانی کی مانند ہے ۔کہ دنیا کے کسی حصیّ میں بھی شیعہ مصائب و مشکلات کا شکار ہوتے ہیں توپوری قوم تڑپ اٹھتی ہے ۔کہیں بھی شیعت ظلم و بربریت کاشکار ہوتی ہے تو اس ظلم کے خلاف صدائے احتجاج بلند کی جاتی ہے۔اور پوری شیعہ قوم سراپا احتجاج بن جاتی ہے۔ اس سلسلے میں مولانا سید ابوالقاسم رضوی کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ۔آپ گزشتہ پچیس برس سے درِ علی ابنِ ابو طالبؑ سے وابستہ ہیں اور انڈیا ، ایران ، سائوتھ افریقہ اور افریقہ کے بعد اب آسٹریلیا میں اپنے علمی وتبلیغی فرائض کی انجام دہی میں مصروف ہیں۔سانحہ علمدار روڈ کوئٹہ کے سلسلے میں جب مجلسِ وحدت مسلمین کے تحت جب پورے پاکستان اور دنیا بھر میں دھرنے اور احتجاجی مظاہرے ہو رہے تھے تو مولانا صاحب نے مجلسِ وحدت مسلمین کی صدائے احتجاج پر لبیک کہا اور پہلی بار آسٹریلیا کی شیعہ برادری نے آپ کی قیادت میں دھرنا کر کے اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔آپ نے اپنی کاوشوں سے یہ ثابت کر دیا کے آپ دور ہو کے بھی پاکستان کی شیعہ قوم کے شریکِ درد ہیں۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی دہشت گردی ،شیعہ قوم کی نسل کشی ، حکومت کی بے حسی اور اس مشکل ترین دور میں ہماری کیا حکمتِ عملی ہونی چاہیے اس سلسلے میں جب ہماری آپ سے گفتگو ہوئی تو آپ نے ہماری درخواست پر ایک مفصل مراسلے کی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا جو ہم قارئین کی نذر کر رہے ہیں۔
موجودہ حالات میں شیعانِ پاکستان کی حکمتِ عملی کے عنوان سے چند معروضات اس مضمون کے تحت مومنین تک پہنچانے کی کوشش کر رہا ہوں
شاید کہ ترے دل میں اتر جائے میری بات
ِِ یہ وقت کی ستم ظریفی ہے کہ جنھوں نے پاکستان بنایا تھا جنھوں نے مملکتِ اسلامی کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیا تھا کہ ایسی اسلامی ریاست معرضِ وجود میں آجائے جہاں اسلامی قوانین کی بالا دستی ہو اور آئین و شریعت کا بول بالا ہو جہاں حقوق العباد کا احترام ہو اور اس ریاست کے رہنے والے اسلام کی صحیح تصویر اپنے اقدام و عمل سے پیش کریں ،ایسی مملکت جہاں امن و امان،سکون وچین ،عدل و حسنِ انتظام ہو مگر
نیرنگئی سیاستِ دوراں نہ پوچھئے
منزل انھیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے
بھڑیا صفت ،تشدد مزاج ظالموں نے جنہیں دنیا طالبان کے نام سے جانتی ہے اپنی باغیانہ سوچ ، انسان دشمنی اور عدل مخا لف بھیڑ کے ساتھ ملک پر قبضہ کر لیا ہے ۔اب صورتِ حال یہ ہے کہ قانون و احکام معطل ہو گئے ہیں جو نظریہ پاکستان کے مخالف تھے انہوں نے ریاست کے اندر ایک ظالم و جابر ریاست قائم کر کے ملک کو تباہ کر دیا ہے ۔محسنین و مخلصین کو اور انکی نسلوں کو بے دریغ قتل کیا جانے لگا ہے اور یہ عمل اب تک شدت سے جاری ہے
اس سے بڑھکر نہیں دنیا میں کوئی جرم عظیم
آدمی کچھ بھی ہو احسان فراموش نہ ہو
پاکستان میں جو کچھ ہو رہا ہے متمدن اور مہذب معاشرہ میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں کیا جا سکتا ۔ایک نام نہاد مملکت یا ریاست میں بھی یہ غیر انسانی عمل نا قابلِ قبول ہے کیونکہ رسولِ خد ا ﷺفرما چکے ہیں (کہ مسلمان وہ ہے کہ جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرا مسلمان محفوظ ہو)اور وہ بھی سرکار کا امتی نہیں ہو سکتا جو صبح اس حال میں بسرکہ امت کی بہتری کی کوئی فکر نہ کرے۔اسلام بے خبری اور لاتعلقی کو پسند نہیں کرتا۔رسول ؐ نے فرمایا ( العالم برمانہ لا یھجم علیہ اللوابس) جو حالاتِ زمانہ سے با خبرہوتا ہے وہ شکوک کا شکار نہیں ہوتا۔پاکستان میں جو کچھ ہو رہاہے وہ قابلِ مذمت و نفرین ہے۔آرنلڈ ٹو این بی نے ۳۳ سا ل کی محنت شاقہ کے بعد اپنی مشہور زمانہ کتاب A study of History لکھی ۔یہ کتاب دس جلدوں اور تیرہ ابواب پر مشتمل ہے جس میں گذشتہ و موجودہ اقوام عالم کا تزکرہ کیا گیا ہے۔خلاصۂ کتاب یہ ہے کہ تاریخّ ِ عالم میں ا ب تک ۲۸ تہذیبوں کے آثار ملتے ہیں جن میں ۱۸ فنا ہو چکی ہیں ۹ زوال پزیر ہیں اور تنہا ایک تہذیب ہے جو ترقی کی جانب رواں دواں ہے البتہ متمدن معاشرہ civilised nation کی ان الفاظ میں تشریح کی ہے کہ جب مشکلات کا مقابلہ ہوئے کوئی معاشرہ فتح و کامرانی حاصل کرتا ہے تو وہیں تہذیب کی بنیاد پڑتی ہے یہ مشکلات تاریخی بھی ہو سکتی ہیں، جغرافیائی بھی، معاشرتی بھی،دینی بھی اور سیاسی بھی۔۔۔۔
البتہ تہذیب کا ارتقاء اقلیت Minority کا مرہونِ منت ہوتا ہے۔یہی لوگ راستہ ڈھونڈتے ہیں،تلاش کرتے ہیں۔اکثریت انکی پیروی کرتی ہے وہی اقلیت ہیں ۔ بقول بسمل جائسی
کثرت دلیلِ حق و صداقت نہ بن سکی
لاکھوں ہوئے ذلیل بہہتر کے سامنے
خدا نے ہدایت اور دین میں بھی اسی اصول کو کار فرما رکھا۔لیکن آج کا پاکستانی کچھ اس طرح کا ہے۔معاشرہ منقسم ہے،روحِ عصر مجروح و شکستہ ، لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ،عوام وخواص ، حاکم و محکوم ، دینی و مذہبی مراکز ، گھر بازار کچھ بھی محفوظ نہیں ہے۔لہذا با شعور مہذب منصف اور پاکستان دوست لوگوں سے میری درحواست ہے کہ ان حالات سے صرف شیعت ہی نہیں بلکہ پورے ملک کو خطرہ لاحق ہے۔پاکستان تباہ ہو رہا ہے۔لٹیرے لوٹ مچائے ہوئے ہیں ۔قاتل و سفاک خیابانِ شہادت میں لاشوں کے انبار لگا رہے ہیں ، مصلحت پسند دانشور ، بے ضمیر مفکر، تاجر علماء، سکوتِ مجرمانہ کو دانش بینش حکمتِ عملی کا نام دیکر منفعتِ عارضی کمانے میں لگے ہوئے ہیں۔انتشار مکمل ہو چکا ہے۔موجودہ معاشرہ کی یوں تشریح کی جا سکتی ہے کہ معاشرہ ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہے ۔کسی نے ماؤزے سے پوچھا قومیں کس طرح ترقی کرتی ہیں تو جواب دیا کہ قومیں بحران، مصیبتوں اور آفتوں میں ترقی کر تی ہیں۔قوموں کو عام حالات Potential کا اندازہ نہیں ہوتا جو قوم Crises میں Potential اور کمزوریوں کا اندازہ نہیں لگا پاتی وہ ترقی کی شاہراہ پر قدم نہیں رکھ سکتی۔وہی قوم ترقی کرتی ہے جو غلطیوں سے سبق حاصل کرتی ہے، اپنی اصلاح کرتی ہے اور خوش آئند مستقبل کی منصوبہ بندی کرتی ہے۔آج شیعہ قوم آزمائش و ابتلاء کے دور سے گذر رہی ہے۔اب وقت آ گیا ہے کہ حسنِ تدبیر اور سعی پیہم سے کام لے کر ملتّ و مملکت دونوں کو تباہی سے بچائیں۔
اپنے کعبے کی حفاظت تمہیں خود کرنی ہو گی
اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا
موجودہ حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
۱۔موجودہ حالات میں ہمیں اجتماعی کوشش کرنی ہو گی تب ہی شیعہ قوم نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں کامیاب و سرخرو ہو گی۔بقول علامہ اقبال
خدانے آ ج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال خود اپنی حالت کے بدلنے کا
۲۔اپنی قوت کا صحیح اندازہ لگا کر مقررہ اہداف کے حصول کے لئے مسلسل کوشش کرتے رہنا ہو گا
لیس للانسان الا ما سعی
انسان کے لئے کچھ بھی ممکن نہیں بشرطیکہ وہ کوشش کرے
(سورۂ نجم آیت ۳۴)
۳۔ استقامت واستقلال کا مظاہرہ قیادت و امتّ دونوں کو کرنا ہو گا۔مدبر و مخلص قیادت کا ہونا بھی ضروری ہے ۔کسی بھی تحریک کی کامیابی میں سب سے اہم رول قائد کا ہوتا ہے۔قائد مدبر ہو ،مخلص نہ ہو تو انجام تباہی۔مخلص ہو تدبیر کی صفت سے عاری تو سر نوشت ناکامی۔رہبر کا نہ ہونا مصیبت ہے اور ہر گوشے سے مدعیانِ رہبری کا ظہور مصیبتِ عظمی ہے۔لہذا تمام تنظیموں کو ایک رہبر پر متفق ہو جانا چاہئیے اور اسلام میں مشورہ بہت اھم ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ بے لوث، بے غرض مجلسِ مشاورت ہو ۔
۴۔وحدتِ امتّ کے لئے قوم سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح ایک ہو جائے حدیث کے مطابق ایک جسم کی طرح متحد ہو چونکہ حضور ؐ نے فرمایا
’’ید ا للہ علی ا لجماعتہ ‘‘ اللہ کا ہاتھ جماعت کے سر پر ہوتا ہے۔یعنی جماعت کو تا ئیدِخدا حاصل ہوتی ہے۔
۵۔آج سب سے بڑا مسئلہ ہماری صفوں میں انتشار ہے اور وہ تعلق و ارتباط جو باہم ہونا چاہیے تھا وہ نہیں رہا ۔برادرانِ ایمانی کے درد کو اپنا درد سمجھیں فرد کے نقصان کو قومی نقصان سمجھا جائے، رو ٹھوں کو منانے کی کوشش کی جائے ۔فاصلے سمیٹے جائیں۔خدا وند تعالی ہمیں حکم دے رہا ہے ’’انما ا لمنون اخوۃ فاصلحوا بین اخویکم ‘‘
بے شک مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور اپنے یھائیوں کے درمیان اصلاح کی کوشش کرتے رہو۔(سورۂ حجرات آیت ۱۰)
امامِ حسین ؑ نے بھی اپنے قیام کے اہداف میں سے ایک ہدف اصلاح امتّ قرار دیا تھا۔
۶۔معجزہ کا انتظار کر نے کے بجائے ذمہ داریاں لینی ہونگی۔مولائے کائنات حضرت علی ؑ نے ارشاد فرمایا ،
’’ کلکم راعٍ و کلکم مسؤلٍ‘‘
تم میں سے ہو ایک اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے جواب دہ ہے۔
۷۔ حوصلہ شکنی نے قوم کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔افراد کی حوصلہ افزائی کی جائے ، قوم کی کامیابی کی تدبیر کی جائے اور منصوبوں کو عملی جامہ پہنایا جائے۔کوشش کرنے والوں کے ساتھ تعاون کو اپنی شرعی ذمہ داری سمجھ کر ادا کرنے کی کوشش کی جائے۔
’’تعاونو علی البر و التقوی ولا تعاونو علی الاثم والعدوان‘‘
نیکی و پرہیز گاری میں ایک دوسرے سے تعاو ن کرو اور گناہ و بغاوت میں بلکل مدد نہ کرو۔صاحبانِ منبر و محراب ، قوم کے اربابِ مجاز ، صاحبانِ نفوذ و اثر کو آگے آناہو گا بہت دیر ہو چکی ہے قوم مزید تاخیر کی متحمل نہیں ہے۔
۸۔آج کی جنگ کا اسلحہ قلم اور میڈیا ہے۔انٹر نیٹ ، ٹی وی ، اخبارات ا ور دیگر تمام ذرائع ابلاغ سے رشتہ استوار رکھا جائے۔
میڈیا ٹیم پر محض احتجاج نہ کیا جائے بلکہ International media کے ذریعے Coverage کرایا جائے Political Pressure بنانا بہت ضروری ہے۔ لوگوں کو ظالموں کا مکروہ چہرہ دکھانا ضروری ہے۔۲۰ فیصد شیعہ عوام وہ طاقت ہے جو جسے چاہے اقتدار میں لائے جسے چاہے اقتدار سے بے دخل کر دے مگر یہ اس وقت ممکن ہے جب قوم متحد ہو ، قیادت مخلص ہو۔الیکشن سے پہلے اپنی مطالبات table پر رکھے جائیں ، معاہدے sign ہوں ،ووٹ تقسیم نہ ہوں ، زیادہ سے زیادہ اپنوں کو سیاسی عمل کے ذریعے پارلیمنٹ تک پہنچائیں محتصر یہ کہ ا یسی سیاسی و سماجی طاقت بن جائیں کہ شیعوں کے بغیر حکومت کا تصور محال ہو جائے۔۔
(تحریر:مولانا سید ابوالقاسم رضوی : میلبورن آسڑیلیا)
(ترتیب و تدوین:ثمینہ مطیع الحسن )